Maktaba Wahhabi

736 - 609
اِسرائیلیات کی حیثیت بلاشبہ قرآن پاک کو دوسری کتبِ سماویہ پر مُهَيمِن(نگہبان)کی حیثیت حاصل ہے اور اس نے بعض واقعات اور مسائل کے بیان کرنے میں تورات سے موافقت بھی کی ہے۔اسی طرح سیدنا عیسیٰ کی وِلادت اور ان کے معجزات کے بیان میں انجیل کی تصدیق کی ہے۔تاہم ان واقعات کے بیان میں کتب سابقہ کے نہج و اُسلوب کی اِتباع سے گریز کیا ہے اور ان واقعات کی غیر ضروری جزئیات کو ترک کر کے صرف انہی حصص کے بیان پر اکتفا کی ہے جن کا تعلق عبرت و موعظت سے ہے یا ان واقعات کو اہل کتاب کے سامنے بطورِ استشہاد پیش کرنا مقصود ہے۔اس بنا پر بعض مفسرین صحابہ نے ان قصص کی جزئیات معلوم کرنے کے سلسلہ میں اہل کتاب کی طرف رجوع کیا اور ان سے روایات بھی قبول کیں،تاہم صحابہ کرام نے نقل و روایت میں حدِاعتدال سے تجاوز نہیں کیا اور حدیث((حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِیلَ وَلَا حَرَجَ))[1](بنی اسرائیل سے روایت کر لو،اس میں کوئی حرج نہیں !)کے پیش نظر جواز کی حد تک اِن سے اِستفادہ کیا ہے اور وہ بھی صرف ان روایات میں جو قرآن و حدیث اور اِسلامی عقائد سے متصادم نہ تھیں [2] اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی اسرائیلیات کی روایت تو جائز ہے لیکن بلادلیل اس کی تصدیق یا تکذیب جائز نہیں ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((إِذَا حَدَّثَکُمْ أَهْلُ الْکِتَابِ فَلَا تُصَدِّقُوهُمْ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ،فَإِنْ كَانَ حَقًّا لَمْ تُكَذِّبُوهُمْ وَإِنْ كَانَ بَاطِلًا لَمْ تُصَدِّقُوهُمْ))[3] کہ جب تمہیں اہل کتاب کوئی واقعہ ذکر کریں تو اس کی تصدیق کرو نہ اس کو جھٹلاؤ،بلکہ کہو کہ ہم اللہ تعالیٰ،ان کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔تاكہ اگر وہ سچ ہو تو تم اُن کو جھٹلا نہ دو اور اگر وہ باطل ہو تو تم ان کی تصدیق نہ کر بیٹھو۔ جن صحابہ نے اہل کتاب سے روایت لی ہے ان میں سے ابوہریرہ،ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو بن العاص خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان صحابہ کی مرویات ملاحظہ کرنے سے ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔تفصیل سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ اس قسم کی روایات بطورِ استشہاد نقل ہوئی ہیں نہ کہ کلیتاً انہی پر اعتماد کیا گیا ہے۔ البتہ صحابہ کرام کے بعد تابعین عظام رحمہم اللہ نے اہل کتاب سے اَخذِ روایت میں توسّع سے کام لیا اور ہم سمجھتے ہیں تفسیری روایات میں اسرائیلیات کی کثرت اسی دور کی پیداوار ہے جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس دَور میں بہت سے اہل کتاب مسلمان ہو گئے تھے اور لوگ قصّے کہانیاں سننے کیلئے اُن کے گرد جمع ہو جاتے تھے،اِس دور میں مفسرین کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی تھی جنہوں نے روایت میں احتیاط سے کام نہ لیا اور رطب ویابس کے بیان کو اپنا مشغلہ بنا لیا،ان میں سے وہب بن منبّہ(114ھ)اور مقاتل بن سلیمان(150ھ)خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
Flag Counter