Maktaba Wahhabi

742 - 609
امام شعبی رحمہ اللہ(100ھ)فرمایا کرتے تھے: "ثلاث لا أقول فيهن حتّى أموت:القرآن والرّوح والرّأي. " [1] کہ جب تک زندہ ہوں،تین چیزوں کےبارے میں کچھ نہیں کہوں گا:قرآن،روح اور رائے وقیاس۔ ابن مجاہد رحمہ اللہ(104ھ)کہتےہیں کہ کسی نے میرے والد سے کہا کہ آپ اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں،میرے والد یہ سن کر روپڑے اورکہنے لگے: "إني إذن لجريء لقد حملتُ التّفسير عن بضعة عشر رجلًا من أصحاب النبي صلّى اللّٰه عليه وسلم ورضي عنهم. " [2] پھر تو میری جسارت کے کیا کہنے !میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدّد صحابہ کرام سے تفسیر قرآن کا درس لیا ہے۔ اصمعی رحمہ اللہ(216ھ)لغت ونحو کے جلیل القدر امام ہونے کے باوجود تفسیر قرآن سے احتراز کرتے تھے،جب کسی لفظ کے معنی دریافت کیے جاتے،تو فرماتے: "العرب تقول:معنى هذا كذا،ولا أعلم المراد منه في الكتاب والسنّة أي شيء هو؟"[3] کہ عرب کہتے ہیں کہ اس کے معنیٰ فلاں فلاں ہیں،مجھے نہیں معلوم کہ کتاب وسنت میں کون سے معنی مراد ہیں۔ مجوزین کے دلائل 1۔ کتابِ الٰہی میں بہت سی ایسی آیات ہیں،جن میں قرآنِ حکیم میں فکر وتدبّر کی دعوت دی گئی ہے،ارشادِ باری ہے: ﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا[4] کہ کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں۔ نیز فرمایا: ﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ[5] کہ یہ بابرکت کتاب ہے،جس کو ہم نے آپ پر نازل کیا تاکہ اس کی آیات میں غور وفکر کریں۔ مذکورہ آیات میں رغبت دلائی گئی ہے کہ آیات الٰہی میں فکر وتدبّر کرکے ان سےعبرت وموعظت حاصل کرنا چاہیے،ظاہر ہے کہ اس صورت میں علمائے کرام کیلئے قرآ ن کریم کی تاویل وتفسیر ممنوع کیوں کر ہوسکتی ہے،حالانکہ قرآن کریم سے علم ومعرفت حاصل
Flag Counter