Maktaba Wahhabi

754 - 609
زبان کے تقاضوں اور اس کی نزاکتوں سے واقف نہیں ہوں گے۔چنانچہ انہوں نے قرآن مجید کے بعض ایسے الفاظ کے معنی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھے جن کے بارے میں ان کا خیال یہ تھا کہ شاید ان کے علم میں نہیں ہوں گے اور اگر علم میں ہوئے بھی تو ان کی جو سند ہے لغت اور ادب کی وہ ان کے سامنے مستحضر نہیں ہوگی۔[1] نافع کے ان دو سو سوالات میں سے بعض کو ابن الانباری رحمہ اللہ(328ھ)نے کتاب الوقف والابتداء میں بیان کیا ہے۔باقی سوالات کو امام طبرانی رحمہ اللہ(360ھ)نےمعجم کبیر میں بیان کیاہے۔ان کو سیوطی رحمہ اللہ نے الاتقان میں بھی بیان کیاہے۔[2]امام طبرانی رحمہ اللہ نے جو سوالات المعجم الکبیر میں روایت کیے ہیں ان کو انہوں نےمسند ابن عباس میں بیان کیا ہے۔[3]سیوطی رحمہ اللہ نے ان سوالات کو اپنی سند سے بیان کیا ہے۔لکھتے ہیں: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما خانہ کعبہ کے قریب بیٹھے ہوئے تھے لوگوں نے ان کو چاروں جانب سے گھیر کر تفسیر قرآن کے متعلّق سوالات کرنے شروع کردیئے۔یہ حالت دیکھ کر نافع بن ازرق نے نجدہ بن عویمر سے کہا کہ میرے ساتھ آؤ یہ شخص(ابن عباس رضی اللہ عنہما)جو اپنی معلومات سے خارج اشیاء کےساتھ قرآن کی تفسیر بیان کرنے کی جرأت کرتا ہے اس کے پاس چلیں۔وہ دونوں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب آئے اور انہوں نےکہا:ہم آپ سے کتاب اللہ کی کچھ باتیں دریافت کرنا چاہتے ہیں آپ ہم کو اُن کامطلب سمجھائیں اور ان کی جو تفسیر آپ بیان کریں اس کی تصدیق کیلئے کلامِ عرب کی نظیر بھی دیتے جائیں اس لئے کہ خداوند کریم نے قرآن کو عرب کی واضح زبان میں اتارا ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کو جواب دیا:جو تمہارے دل میں آئے مجھ سے بے تکلف دریافت کرو۔[4] مفردات قرآن اور آیاتِ قرآنی کی تفسیر و تشریح میں کلامِ عرب سے استفادہ و استشہاد عہدِ صحابہ کے بعد بھی جاری رہا۔ابوبکر ابن الانباری رحمہ اللہ(328ھ)فرماتے ہیں:"قد جاء عن الصحابة والتابعین کثیر الاحتجاج على غریب القرآن ومشکله بالشعر.'' [5]کہ صحابہ اور تابعین کا غریب القرآن اور مشکلات القرآن میں شعر سے استشہاد و احتجاج بکثرت ثابت ہے۔ عہد تابعین میں تفسیر القرآن باللغۃ کی مثالیں بیشتر تابعین عربی زبان کے ماہر تھے،اس لئے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ماثور تفسیر کی عدم موجودگی میں عربی زبان کی روشنی میں تفسیر کیاکرتے تھے۔ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ کہتے ہیں:
Flag Counter