Maktaba Wahhabi

761 - 609
نظم ومناسبت پر لکھی گئی کتب کا ارتقائی جائزہ چوتھی صدی ہجری کے رُبع اوّل کے محقّق ابوبکر نیشاپوری رحمہ اللہ(326ھ)کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے آیات اور سورتوں میں مناسبات سے متعلق سوالات اٹھائے اور ان میں باہمی وجوہ اور حکمتوں پر بحث کا دروازہ کھولا اور اس جدید نہج سے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے پر زور دیا اور آپ اہل عراق کی اس علم سے غفلت برتنے کی شکایت فرمایا کرتے تھے۔[1]اسی صدی کے آخر میں ابوالفرح احمد بن مقری رحمہ اللہ(400ھ)نے اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب ’علم المناسبۃ‘ کے نام سے تصنیف کی۔[2] پانچویں صدی میں امام عبدالقاہر جرجانی رحمہ اللہ(471ھ)نے ’دلائل الاعجاز‘ لکھ کر ثابت کیا کہ بلاغتِ کلام کا اصل مرجع نظم کے خصائص میں ہے۔پھر چھٹی صدی ہجری کے دو ممتازمفسرین نے اس فکر کو وسعت دینے میں خاص توجہ دی،ان میں سے ایک جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ(538ھ)ہیں،جنہوں نے مناسباتِ آیات کو بلاغتِ قرآنی کا جزو قرار دیا او راس کے مخفی پہلوؤں کو اپنی تفسیر الکشاف میں بیان کیا۔[3]دوسرے محقق قاضی ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ(543ھ)ہیں جو علم مناسبہ کو عظیم علم قرار دیتے ہیں او روہ پہلے مفسر ہیں جو آیات میں اس درجہ پیوستگی کے قائل ہیں کہ فرماتے ہیں:قرآن حکیم کل ایک کلمہ واحدہ کی مانند ہے جس میں آیات باہم وحدتِ بسیطہ کی طرح مربوط ہیں۔[4]مگر مناسبات کی بحث کو سب سے زیادہ پیش رفت اور اہمیت فخر الدین رازی رحمہ اللہ(606ھ)کی تفسیر مفاتیح الغیب سے حاصل ہوئی جس میں نظم اور روابطِ آیات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور جملوں کی تقدیم و تاخیر صیغوں کے اختلاف،الفاظ کے وصل اور فصل کے ذرا ذرا سے فرق سے بے شمار اسرار و رموز بے نقاب کئے۔امام رازی رحمہ اللہ پہلے مفسر ہیں جوترتیب اور نظم آیات کو الفاظ و معانی کی طرح معجزہ قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ جو لوگ قرآن کے اسلوب کو معجزہ مانتے ہیں اس سے ان کی مراد ترتیب اور نظم آیات ہی کا اعجاز ہے۔[5]امام رازی رحمہ اللہ اپنے پیشرو امام نیشاپوری رحمہ اللہ کی طرح اپنے عہد کے مفسرین کی ملامت کرتے ہیں [6]جو اپنی تنگی نظر کے سبب اس علم کی قدر شناسی سے قاصر ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس باب میں اصل صورت حال کسی شاعر کے اس شعر [7]کے مطابق ہے: وَالنَّجْمُ تَسْتَصْغِرُ الْأَبْصَارُ رُؤْيَتَهُ وَالذَّنْبُ لِلطَّرْفِ لَا لِلنَّجْمِ فِي الصّغَر کہ آنکھوں کو جو ستارے چھوٹے نظر آتے ہیں تو اس چھوٹے نظر آنے میں قصور آنکھوں کا ہے نہ کہ ستاروں کا۔
Flag Counter