Maktaba Wahhabi

766 - 609
اختتامیہ تفسیر بالماثور کی اصطلاح سلف کے ہاں معروف ہے،لیکن اس سے قرآن کی تفسیر قرآن سے،قرآن کی تفسیر سنت سے،قرآن کی تفسیر اَقوال صحابہ سے اور قرآن کی تفسیر اَقوال تابعین سے کرنا،مراد لینا ایک معاصر اصطلاح ہے۔ تفسیر بالماثور کی تحدید جن حضرات نے تفسیر بالماثور کو ان چار انواع میں محدود کیا ہے،انہوں نے اس تحدید کا سبب بیان نہیں کیا او ریہ تحدید اجتہادی ہے۔جس کو اَخذ بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی۔تفسیر بالماثور کا سب سے پہلے محمد عبد العظیم زرقانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا۔وہ تفسیر بالماثور کے موضوع کے تحت لکھتے ہیں: ’’تفسیر بالماثور وہ ہے جو قرآن،سنت یا اقوال صحابہ سے اللہ کی مراد کو واضح کرنے کے لئے کی جائے۔‘‘[1] پھر ان کے بعد شیخ محمدحسین ذہبی رحمہ اللہ نے ان چاروں انواع کو(تفسیر بالماثور)کی اصطلاح کے تحت ذکر کیا ہے،وہ لکھتے ہیں: ’’تفسیر بالماثور ہر اس شے پرمشتمل ہوتی ہے جو خود قرآن میں اس کا بیان یا تفصیل آجائے یا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو یا جو صحابہ اور تابعین سے منقول ہو۔[2] پھر بعض معاصرین اہل علم اس کی مذکورہ تقسیم پر چل نکلے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا وجود زیادہ تر علوم قرآن اور مناہج المفسرین پر لکھی گئی جدید کتب اور بعض تفاسیر کے مقدمات میں پایا جاتا ہے۔انہوں نے صحت کا خیال رکھنے کی بجائے کتاب التفسیر والمفسّرون سے بلا تامّل نقل کردیا ہے۔ اصل اختلاط اس جدید اصطلاح میں پیدا ہوا ہے جو اس کی عدمِ صحت پر دلالت کرتا ہے،انہوں نے اس کی اصل شاید امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام سے لی ہے۔وہ أحسن طرق التفسیر کے تحت لکھتے ہیں: ’’قرآن کی تفسیر سب سے پہلے قرآن سے کی جائے،پھر سنت سے،پھر اقوال صحابہ سے اور پھر اقوال تابعین سے‘‘[3] لیکن انہوں نےامام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصطلاح(طرق التفسیر)کو(تفسیر بالماثور)سے بدل دیا ہے۔نیز انہوں نے تابعین کی تفسیر کے بارے میں اختلاف نقل کیا ہے کہ اسے تفسیر بالماثور کہا جائے یا نہ کہا جائے۔ محمد عبد العظیم زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’تابعین سے منقول تفسیر میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض نے اسے تفسیر بالماثور قرار دیا ہے کیونکہ انہوں نے غالباً صحابہ سے
Flag Counter