Maktaba Wahhabi

769 - 609
باطل کرتا اور نہ ہی آیت کے معنی میں کوئی کمی کرتا ہو۔ 2۔ رائے مذموم:اس کی متعدّد صورتیں ہیں۔مثلاً جہالت یا خواہشات نفس کے مطابق تفسیر کرنا۔مبتدعہ،رافضہ اور صوفیاء وغیرہ کی اغلب تفاسیر اسی قبیل سے ہیں۔ تفسیر بالماثور کا واجب الأخذ ہونا؟ مناع القطان فرماتے ہیں:تفسیربالماثور وہ ہے جس کو اخذ کرنا واجب ہے کیونکہ یہی صحیح معرفت کا طریق ہے اور کتاب اللہ میں لغزش سے بچاؤ کا راستہ ہے۔[1] لیکن ڈاکٹر مناع القطان کی کلام دو اعتبار سے ناقص ہے۔ 1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے علاوہ سے منقول اغلب تفسیر القرآن بالقرآن اجتہاد کی قبیل سے ہے اور وہ تفسیر بالرّائے میں داخل ہے۔اب اس کی قبولیت فقط ماثور ہونے کی بناء پر نہیں ہوگی بلکہ دیگر قرائن کی بنیاد پر ہوگی۔ 2۔ ایسی تفسیر کو اخذ کرنا کیسے واجب ہوسکتا ہے جس میں سلف کے درمیان بھی اختلاف واقع ہوچکا ہو؟ در اصل تفسیر میں رائے کے دخل کے اعتبار سے دو انواع ہیں: 1۔ وہ تفسیر جس میں رائے داخل نہیں ہوسکتی،اس کی دو اقسام ہیں:نمبر1:وہ تفسیر جو صرف ایک ہی معنی کا احتمال رکھتی ہو،کیونکہ اگر اس میں متعدّد معانی کا احتمال ہوتو کسی ایک معنی کو اختیار کیا جاتا ہے اور یہ عمل اجتہاد اوررائے پر مبنی ہوتا ہے۔نمبر2:وہ جملہ تفاسیر جن میں کسی بھی مفسر کے پاس نقل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا او ریہ قسم ان اُمور پرمشتمل ہوتی ہے۔صریح تفسیر نبوی،اسباب نزول یا اشیاء کے اوصاف اور قصص کے بارے میں وارد اخبارِ غیبی اور اسماء مبہمات وغیرہ۔یہ مقام ترجیح دینے کی بجائے وصف بیان کرنے کا ہوتا ہے۔ 2۔ وہ تفسیر جس میں رائے داخل ہوسکتی ہے،اس قسم میں وہ تمام تفسیریں آجائیں گی جن میں متعدّد احتمال پائے جاتے ہیں کیونکہ احتمال،اختلاف کا پیش خیمہ ہے اور مراد کی تعیین میں اجتہاد کیا جائے گا۔
Flag Counter