Maktaba Wahhabi

773 - 609
کے مطالب،فوائد،ا صل شبہات اور تاریخی،اخلاقی اور حکیمانہ مہارت کا بیان کس طرح ناپید ہو جاتا ہے۔نظام ختم ہونے پر اس حکیمانہ خطبہ کی حیثیت ہذیان کی سی ہو جاتی ہے۔[1] مناسبت اور نظام میں فرق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک مناسبت اور نظام میں فرق ہے۔مناسبت کا تعلّق بعض آیات یا بعض سورتوں کے باہمی ربط سے ہے۔جبکہ نظام سے مراد سورہ کے اجزاء کی وہ باہمی مناسبت ہے،جس کے معلوم ہونے پر پوری سورت ایک وحدت میں ڈھل جائے۔اس صورت میں کلام کا مفہوم مربوط اور ایک ہی مرکزی مضمون کا حامل نظر آتا ہے کہ پوری سورہ مشخص ہو کر سامنے آتی ہے اور کلام میں ایک جمال،ایک پختگی اور وضاحت کا ادراک ہوتا ہے۔نظام محض ایک سورت تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس سورت کی مناسبت ان سورتوں کے ساتھ بھی معلوم ہو جائے جو اس کے ساتھ متصل ہیں۔اس طرح گویا تناسب علم نظام کا ایک جزو ہے۔آیات کے اندر اگر تناسب معلوم ہو بھی جائے تو اس سے پورے کلام پر وہ روشنی نہیں پڑتی جو اسے معنوی وحدت کے رشتہ میں پرو کر اس کو ایک مستقل کلام کی حیثیت دے سکے۔ تناسب کا طلبگار عموماً اس مناسبت کو تلاش کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتا بلکہ مجرّد مناسبت پر خواہ وہ کسی قسم کی ہو،قناعت کر لیتا ہے۔دوسرے اس رشتہ کو ہاتھ سے چھوڑ دینے کا اکثر نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر آیت میں کھینچ تان کر ایک مناسبت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی نہ کوئی مناسبت قائم بھی کر دیتا ہے۔حالانکہ سرے سے ان قریبی آیات میں کوئی تعلّق نہیں ہوتا بلکہ نظم کلام کے مطابق پاس والی آیت اس آیت سےمتصل ہوتی ہےجو اس کی قبل والی آیت سے بہت دور واقع ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امت کے بعض ذہین علماء اس طرح کی آیتوں میں جب کوئی معقول اور مناسب تناسب نہ پاسکے تو انہوں نے تناسب ہی کا انکار کر دیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس طرح کی آیات قرآن میں بہت ہیں جو اپنے پاس والی آیت سے ربط نہیں رکھتیں اور عموماً اس طرح کے مشکلات سے انہی مقامات پر سابقہ پیش آتا ہے جہاں کوئی آیت یا آیتوں کا مجموعہ اپنے پاس والی آیت سے بہت دورکسی دوسری آیت سے متعلق ہوتاہے۔[2] نظم کی ضرورت و افادیت مولانا فراہی رحمہ اللہ کو نظمِ قرآن پر قلم اُٹھانے کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟ اس حوالے سے اُن کا خیال ہے کہ لوگوں نے آیاتِ قرآنیہ میں نظم کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جس کی وجہ سے تاویل کا بہت سا اختلاف رونما ہوا ہے۔حالت یہ ہے کہ ہر فریق اپنے اپنے خیال کے مطابق تاویل کر رہا ہے اور کلام کو اس کی صحیح سمت سے ہٹا کر جس وادی میں چاہتا ہے اس کو گھسیٹے پھرتا ہے اور نظم کلام،جو صحیح سمت کو متعین کرنے والی واحد چیز ہے اور جس سے اہل بدعت وضلالت اور اصحاب تحریف کی کجرویوں کی اصلاح ہوسکتی ہے وہ بیچ سے بالکل غائب ہے۔اگر سورت کا مرکزی مضمون سب کے سامنے ہوتا تو تاویل میں کسی قسم کا اختلاف نہ ہوتا۔بلکہ سب ایک ہی بات پر متفق
Flag Counter