Maktaba Wahhabi

779 - 609
ایسے ہیں کہ کوئی بھی صاحب نظر انہیں دیکھ کر بآسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ اس سفر کے لیے کتنے اہم اور ناگزیر ہیں۔[1] اعجاز قرآن اور نظم قرآن كريم ايك معجزانہ کلام ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ حسن ترتیب اور نظم سے عاری ہو۔کوئی بھی صاحب عقل اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ اپنا منتشر اور غیر مربوط کلام قارئین کے درمیان نقد وجر ح کے لیے چھوڑ دے اور اس کی تصحیح و تنقیح پر کوئی توجہ نہ دے۔خالق کائنات کا کلام تو فصاحت و بلاغت کیلئے اس قوم کے لیے معجزہ قرار پایا جو زبان آوری اور بلاغت میں معروف تھی۔اس نے بار بار اس کلام کو پڑھا۔کسی چیز کا حسن ومنفعت رسانی اس کے تناسب و تنظیم پر منحصر ہے خاص طور سے فصیح و بلیغ کلام اس کے بغیر ادبیت کا نمونہ ہو ہی نہیں سکتا۔کلام الٰہی نے عرب کی اس فصیح اللّسان قوم سے قرآنی کلام کے مثل کوئی کلام لانے کا مطالبہ کیا خواہ وہ ایک سورت ہی ہو اس صورت میں کوئی مسلمان یہ دعویٰ کیسے کر سکتا ہے یہ معجزاتی کلام حسنِ نظم سے خالی ہے؟ مولانا فراہی رحمہ اللہ اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سب سے افضل اور پائندہ تر،مضبوط ترین اور واضح ترین دلیل قرآن مجید ہے۔ہم یہ بات بالبداہت جانتے ہیں کہ حسن ترتیب ایک بلیغ کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ہم قرآن کے معجزہ ہونے پر بھی یقین رکھتے ہیں۔پس کیا ہم یہ پسند کریں گے کہ قرآن کو حسن و ترتیب سے عاری قرار دیں؟ ہم اس کے معانی کے ربط اور اس کے لوازم اور اس کی ترتیب کی پختگی میں غور و فکر کرنے کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ ہم کسی بھی عقل مند و پختہ کا ر آدمی کے کلام کو ترتیب سے عاری کر کے خوش نہیں ہو سکتے ؟ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک قادر الکلام خطیب جو فن بلاغت کو استعمال میں لاتا اور حسن بیان سے لوگوں کو فریفتہ کر لیتا ہے،کی قدر تمہارے دل سے اس لئے اٹھ جاتی ہے کہ اس نے ربط کلام سے غفلت برتی اور ایک وادی سے دوسری وادی میں بھٹکنے لگ گیا۔وہ چاہے اپنے خطاب کو اس طرح ڈھیلا چھوڑ دینے کے لئے معذور ہو کہ وہ خطاب پر مکمل غور و فکر نہ کر سکا ہو مگر یہ رد عمل اس لئے ہوتا ہے کہ ایک بلیغ کلام سوء ترتیب کو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔اگر امر واقعہ یہی ہے تو اعجاز قرآن پر یقین رکھنے والے آدمی کی کیا یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ قرآن کے نظام کے حسن اور اس کی ترتیب کی پختگی کو ثابت کرے۔‘‘[2] علم نظام القرآن اور مولانا فراہی رحمہ اللہ کا امتیاز مولانا فراہی رحمہ اللہ اپنے معاصر علماء میں واحد ایسے شخص ہیں جنہوں نے اس علم کی طرف توجہ کی۔ہندوستان سے لے کر عرب و اسلامی ملکوں میں انیسویں اور بیسویں صدی کے اندر جو علما ء ومفسرین پیدا ہوئے ان کی محنتیں اور کاوشیں ہمارے سامنے ہیں۔ان سب نے اپنے اپنے انداز میں قرآن کریم کی خدمت انجام دی اور قرآن مجید سے متعلق بہت بڑا لٹریچر اردو،عربی اور دیگر زبانوں میں وجود میں آیا۔عرب ممالک میں شیخ محمد عبدہ(1905ء)اور ان کے شاگرد رشید رضا(1935ء)کی تفسیر ’ المنار‘بعد کےمفسرین میں شیخ شلتوت(1904ء)،محمد شیخ مدنی،شہید سید قطب(1966ء)،طنطاوی جوہری(1940ء)اور ہندوستان میں نواب صدیق الحسن
Flag Counter