Maktaba Wahhabi

787 - 609
کے زمانے کا قرب ہے۔مثلاًدعوت کے ابتدائی زمانے کے واقعات اسی پہلو سے منظم ہیں۔اور ایک دوسرے سے ہٹ کر نہیں آتے۔اسی طرح ہجرت کے موقع کے بعد کےواقعات ہیں۔پھر مدینہ کی ریاست کے قیام یا فتح مکہ اور اس کے بعد کے زمانہ کے مسائل ہیں۔یہ سب معلوم و مشہود اور نمایاں ہیں۔اسی زمانی بنیاد پر علمائے سلف نے مکی و مدنی سورتوں کی تقسیم کی ہے یا بعض مکی سورتوں کی آیات کو مدنی اور بعض مدنی سورتوں کی آیات کو مکی کہا ہے۔انہوں نے اس سے زیادہ تقسیم نہیں کی۔اگر انہی کے اصول پر مزید غور کیا جائےتو ابتدائی دعوت کے امور ہجرت سے پہلے اور بعد یا فتح مکہ سے پہلے اور بعد کے زمانہ کے واقعات بھی پوشیدہ نہیں رہتے۔البتہ ایک زیادہ مخفی پہلو پھر بھی باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے مستقبل سے متعلّق آیات کا نظم۔قرآن مجید میں اس بات کے اشارات موجود ہیں کہ اس امت کو مستقبل میں کیا حالات درپیش ہوں گے اور انہیں کس چیز کی حاجت ہوگی۔صحابہ کرام ان اشارات سے واقف تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش آنے والے واقعات میں ان کے مصداق بتایا کرتے تھے۔ان اشارات کی نمایاں مثالیں سورہ ہود کی آخری آیات اور سورہ الحجرات میں موجود ہیں۔یہ معلوم ہونا چاہئے کہ واقعات جب تک سامنے نہ آئیں اس وقت تک اشارات کی حقیقت ظاہر نہیں ہو سکتی۔قلب صافی رکھنے والوں کے سوا دوسرے لوگ ان کے پیش آنے پر آیات کی دلالت پر متنبہ ہو جاتے ہیں۔قلب صافی رکھنے والے اپنے علم کو پوشیدہ رکھتے ہیں۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو لوگ ان کو جھٹلانے پر کمر بستہ ہو جاتے ہ یں۔یہی وجہ ہے کہ سورہ ہود کی آخری آیات سر بستہ راز ہیں۔ان کے نظم پر جب تک غور نہ کیا جائے،حقائق سے پردہ نہیں اٹھتا۔[1] 2۔محل کلام ایک اور چیز جو فہم نظام میں مدد دیتی ہے وہ موقع کلام کا تعین ہے۔موقع کے تقاضا کی دلالت ظاہر یا مخفی طور پر خود کلام میں موجود ہوتی ہے۔مثلاً سورہ اعلیٰ کی آیت﴿سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى[2] کہ ہم تمہیں پڑھائیں گے تو تم نہیں بھولو گے۔کے نظم کی طرف میری رہنمائی اس کے موقع پر غور کے بعد ہوئی۔یہ اس وقت ممکن ہوا جب مجھے تسبیح کے مواقع کی طرف رہنمائی ہوئی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسبیح کرنے کا حکم ایک تو اس موقع پر دیا جاتا جب آپ اپنی تعلیم کا اثر دیکھتے۔آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال پر نظر رکھا کرتے تھے۔جب ان کو توقع کے مطابق پاتے تو اس پر آپ کے لئے شکر و حمد واجب ہوتی۔اس کی مثال سورہ نصر میں موجود ہے۔حسب ذیل آیت کا مضمون بھی یہی ہے:﴿وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ()الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ()وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ[3] کہ اور خدائے عزیز و رحیم پر بھروسہ رکھو۔اس خدا پر جو تمہیں دیکھتا ہے اس وقت جب تم اٹھتے ہو اور دیکھتا ہے تمہاری آمد و شد کو سجدہ کرنے والوں کے درمیان۔ اسی بنیاد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی تسبیح کا حکم دیا گیا جب آپ صحابہ کو نماز پڑھتے اور انفاق کرتے دیکھتے۔انہیں حضور کی نصیحت سے اپنے اپنے مقدور کے مطابق فائدہ ہوتا اور ان کی کیفیت وہی ہوتی جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:﴿كَزَرْعٍ أَخْرَجَ
Flag Counter