Maktaba Wahhabi

797 - 609
انہوں نے بعض مقامات پر اپنے استاد سے اختلاف بھی کیا ہے۔ نظم قرآن اور ارباب علم کی آراء: علم نظم قرآن کی اہمیت و افادیت کے بارے میں اہل علم کی آراء مختلف ہیں۔بعض اہل علم اس کی افادیت کے نہ صرف قائل تھے،بلکہ انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر میں بھی اس سے فائدہ اٹھایا،جب کہ بعض اسے تکلف محض سے تعبیر کرتے ہیں اور نظم قرآن کے ایک نمایاں مخالف اور ناقد ہیں۔ذیل میں دونوں نقطہ ہائے نگاہ کے حاملین کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مخالفین نظم قرآن عزالدین بن عبدالسلام(659ھ)لکھتے ہیں: ’’مناسبت ایک عمدہ علم ہے مگر کلام کےاور اتباط کے لئے شرط ہے کہ وہ ایسی ساخت کا حامل ہو جس میں وحدت ہو اور اس کا اول و آخر مربوط ہو۔اگر کلام مختلف اسباب پر مشتمل ہو تو اس میں باہم ربط نہ ہوگا۔جو شخص ایسے کلام کو مربوط بنانے کی کوشش کرے گا وہ مکلف و تصنع کا سہارا لینے پر مجبور ہوگا اور ایسے ربط کی تلاش میں جس پر اسے قدرت نہ ہوگی سر کھپائے گا جو رکیک اور کمزور ہو گا جس سے ہر اچھا کلام چہ جائیکہ وہ بہترین کلام ہو،محفوظ ہوتا ہے۔قرآن پاک کا نزول بیس سال سے زائد عرصہ میں ہوا اور یہ آیات مختلف اسباب کے تحت مختلف احکام لیکر نازل ہوئیں۔جس کلام کا حال یہ ہو،وہ باہم دگر مربوط کیسے ہو سکتا ہے؟۔[1] ماضی قریب کے مشہور مفسر امام شو کانی رحمہ اللہ(1250ھ)نے بھی نظم قرآن کی تلاش کو لا یعنی اور وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔سورہ بقرہ کی آیت(40)کے تحت فرماتے ہیں: جان لو کہ بہت سے مفسرین نے ایک زحمت طلب علم دریافت کیا ہے۔انہوں نے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زنی کی ہے جس میں تیرنے کے وہ مکلف نہیں بنانے گئے۔انہوں نے ایک ایسے فن میں اپنے اوقات صرف کیے جو ان کے لیئے قطعی سود مند نہیں ہے،بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو ایسی مجر درائے اور گمان سے کام لینے پر مجبور کیا جو کتاب الہٰی کے معاملات میں بالکل ممنوع ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ انہوں نے ترتیب کے مطابق قرآنی آیات کی تنظیم کے درمیان مناسبت کا التزام کیاہے اور اس راہ میں ایسے تکلفات اور اس قدر تصنع سے انہیں کام لینا پڑا ہے کہ حق و انصاف پناہ مانگتے ہیں۔کلام اللہ تو دور کی بات ماہرین بلاغت کا کام بھی ایسے تکلفات سے مبرا ہوتا ہے۔ان لوگوں نے اس موضوع پر علیحدہ سے کتابیں تصنیف کی ہیں اور مناسبت کو تالیف کا اہم ترین مقصد قرار دیا ہے،جیسا کہ بقاعی نے اپنی تفسیر میں کیا ہے۔ان کے پیش رووں نے بھی جن کا تذکرہ بقاعی نے اپنے مقدمہ میں کیا ہے اس طرح کی کوشش کی ہے۔یہ بات ہر اس شخص کو عجیب و غریب معلوم ہوگی جو اس حقیقت سے واقف ہے کہ قرآن اپنے آغاز نزول سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک مختلف حالات و واقعات کے مطابق متفرق شکل میں اترا ہے۔عالم کو چھوڑیئے،کوئی بھی صاحب عقل اس امر میں شک نہیں کر سکتا کہ نزول قرآن کے مقتضیٰ یہ حالات و واقعات خود ایک دوسرے سے مختلف اور جدا ہیں،بلکہ بسا اوقات باہم متضاد بھی ہیں،جیسے ایک چیز کو حرام قرار دینا جو پہلے حلال تھی اور ایک چیز کو حلال قرار دینا جو پہلے حرام تھی،ایک امر کو کسی شخص یا کچھ اشخاص کیلئے ثابت کرنا،جبکہ دیگر کیلئے اس کے برعکس تھا جو پہلے ان کے لئے تھا۔
Flag Counter