Maktaba Wahhabi

810 - 609
فصاحت اور بلاغت میں فرق و امتیاز کیا فصاحت و بلاغت ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں یا ان میں کوئی امتیاز اور فرق بھی پایا جاتاہے ؟ اس سوال کا جواب میں اکثراربابِ لغت تواسی کے قائل ہیں کہ یہ دونوں جدا جدا چیزیں ہیں۔چنانچہ فصاحت کا تعلّق الفاظ وعبارت سے ہے اور بلاغت کا مفہوم ومعانی سے۔چنانچہ ’معنی بلیغ ‘اور ’لفظ فصیح‘ کی تراکیب استعمال کی جاتی ہیں۔ ابوالقاسم آمدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "الفصاحة صنو للبلاغة ووجه من وجوهها. "[1] ’’ فصاحت،بلاغت ہی کےمماثل اور اسی کے متعدد پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے ‘‘ پھر بلاغت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "إصابة المعنی وإدراك الغرض بألفاظ سهلة عذبة كافية مستعملة سليمة من التكلف كافية لا تبلغ الهذر الزائد على قدر الحاجة ولا تنقص نقصانًا يقف دون الغاية. "[2] فصاحت اور بلاغت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ فصاحت کا تعلق کلام،متکلم اور کلمہ تین چیزو ں سےہوتاہے جبکہ بلاغت محض متکلّم اور کلام سے متعلق ہوتی ہے۔کلمہ سےاس کا علاقہ نہیں ہوتا۔چنانچہ کلام بلیغ اور متکلم بلیغ تو کہا جاتا ہے لیکن کلمہ بلیغہ نہیں۔اس کے برعکس کلمہ فصیحہ کی ترکیب عمومی طور پر رائج ہے۔[3] قرآن مجید کے اوّلین مخاطب صحابہ کرام تھے۔جن کی زبان اور احوال کے مطابق قرآن اترتا تھا،اسی وجہ سے اسے مقتضائے حال کے موافق خیال کیا جاتا ہے۔قرآنِ مجید کو بلیغ سمجھنے والا ہر شخص قرآن مجید کےاوّلین مخاطب یعنی صحابہ کرام کے فہم کو حجّت جانتاہے اور تفسیر میں ان کے فہم کو پیش نظر رکھتا ہے۔ مندرجہ بالا اقوال و بیانات سےیہ حقیقت نکھر کر نظر و بصر کے سامنےآتی ہے کہ قرآنِ حکیم کی بلاغت اور فصاحت اس امر کی متقاضی ہے کہ اس کے اولین مخاطب اسے پورے طور پر سمجھ لینے میں کامیاب ہوگئےہوں۔اس لیے کہ اگر یہ فرض کرلیاجائے کہ قرآن شریف،صحابہ کرام کو سمجھ نہیں آیا جو اس کےسب سے پہلے مخاطب تھے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن حکیم کلام بلیغ نہیں،کیونکہ علامہ ابن الاثیر کےمطابق ایسی بلاغت کا کیا فائدہ جو سامع یا قاری کواذعان و تسلیم پر آمادہ ہی نہ کرے۔ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طور پر لائقِ تسلیم نہیں۔ اگر متکلم اپنے مافی الضمیر پر اطلاع دینے کی خاطر ایک بات کرے اور مخاطب باوجود اہل زبان ہونے کے،اس کے مفہوم ومراد کو،نہ اس کے الفاظ سے سمجھ سکے اورنہ قرائن وغیرہ سے،تو وہ کلام سطحی ہوتی ہے یا فصاحت و بلاغت سے ساقط۔کیونکہ کلام کے بلیغ ہونے کا یہ معنی ہے کہ فصیح ہونے کے ساتھ مقتضیٰ حال(موقع ومحل)کے موافق ہو پھر
Flag Counter