Maktaba Wahhabi

850 - 609
کہ جس طرح اللہ عزو جل نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ متنِ قرآن کی حفاظت کرےگا:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾کہ ہم نے ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔اسی طرح اس کی تشریح و بیان کا بھی وعدہ فرمایا ہے:﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾کہ پھر ہمارے ذمے ہے اس کی وضاحت کرنا۔چنانچہ یہ اسی وعدہ کا ایفا ہے کہ اللہ عزو جل نے عربی زبان وادب کو ایک زندہ و قائم زبان بنادیا ہے،اور اس کو مٹنے سے محفوظ رکھا ہے۔ مفرداتِ قرآنی کی تحقیق مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ’مفردات القرآن‘ لکھی تو اس میں ان کا مطمحِ نظر یہ تھا کہ قدیم کلامِ عرب اور قرآنی استعمالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نمونے کے کچھ اہم اور مخصوص مفردات کی تحقیق و تشریح کی جائے۔الفاظ کی اصل کا سُراغ لگا یا جائے،ان کی روح کو سمجھنے اور باریکیوں اور لطافتوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی جائے اور عام اہلِ لغت کی طرح محض کسی لفظ کے بہت سے معانی یکجا کر دینے پر اکتفاء نہ کیا جائے،بلکہ الفاظ و لغات سے متعلّق کچھ ایسی اُصولی بحثوں سے روشناس کرایا جائے جن سے بخوبی معلوم ہو سکے کہ الفاظ کی تحقیق کس اندازسے ہونی چاہئے؟ اور بحث وتحقیق کے کیا اُصول ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئیں؟ مولانا ’مفردات القرآن‘ کے مقدّمہ میں رقمطراز ہیں: "ولا نُورد في هذا الكتاب من الألفاظ إلا ما يقتضي بيانًا وإيضاحًا،إما لبناء فهم الكلام أو نظمه عليه،فإن الخطأ ربما يقع في نفس معنى الكلمة،فيُبْعِد عن التأويل الصّحيح؛ أو في بعض وجوهه،فيُغْلِق بابَ معرفة النّظم. وأما عامّة الكلمات فلم نتعرّض لها،وكتب اللّغة والأدب كافلةٌ به"[1] کہ اس کتاب میں ہم صرف انہی الفاظ و کلمات کو موضوع بحث بنائیں گے،کلام کا نظم و ربط جن کی تشریح و توضیح کا متقاضی ہو،کیونکہ غلطی بعض اوقات نفس کلمہ کے معنی میں واقع ہوتی ہے تو صحیح تاویل سے دور کر دیتی ہے یا بعض اوقات اس کی مختلف وجوہ میں ہوتی ہے تو نظم کی معرفت کا دروازہ بند کر دیتی ہے۔جہاں تک باقی عام کلمات کا تعلّق ہے،تو ان سے ہم کوئی تعرض نہیں کریں گے،لغت و اَدب کی کتابیں ان کیلئے کافی ہیں۔ مگر چونکہ یہ کتاب پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی،اس لئے محض اس کتاب کی بنیاد پر مفردات کی تحقیق میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مکمل طریقہ کار کی نشاندہی کرنا علمی حق تلفی کے مرادف ہے۔[2]مولانا فراہی رحمہ اللہ کی کتاب ’مفردات القرآن‘ اور ان کی دیگر تصنیفات کی روشنی میں ان بعض رہنما اُصولوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جنہیں مولانا نے مفرداتِ قرآنی کی تحقیق میں پیش نظر رکھا ہے: 1۔ و ہ مفردات کی تحقیق میں محض لغت و تفسیر کی کتابوں کی نقل و حکایت اور ان کے بیان کردہ معانی کی تلخیص و تفصیل پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ لفظ کو اس کے اصل منبع و مرجع یعنی خود قرآن کریم اور پھر کلامِ عرب کی کسوٹی پر رکھتے ہیں۔کیونکہ قرآنِ کریم خالص عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور زبان بھی وہ جو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزے کی حد کو پہنچی ہوئی ہے۔اس لیے
Flag Counter