Maktaba Wahhabi

886 - 609
پر اُترا ہے۔کمالِ فصاحت اسی میں ہے کہ معنی مراد کو ایسی سلاست اور روانگی سے مقتضائے حال کے مطابق موافق ادا کیا جائے کہ الفاظ منہ سے نکلتے ہی معنی مراد دل میں نقش ہو جائیں۔جس کلام کا معنی مراد ہی متعیّن نہ ہو تو ایسی مشتبہ اور مبہم کلام کو بھی کون فصیح و بلیغ کہہ سکتا ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہو کہ قرآن پاک کا معنی مراد ہی متعین نہیں ہوتا اور جو آتا ہے اس سے نیا مطلب سمجھتا ہے اوراس کے اصلی معنی سے ایک شخص نہیں دو نہیں بلکہ سینکڑوں حاضریں وحی غفلت کرجاتے ہیں،ایسا شخص در اصل قرآنِ پاک کی فصاحت وبلاغت پر ایمان نہیں رکھتا،مختصر معنی میں ہے۔ "فالبلاغة صفة راجعة إلى اللفظ يعني أنه یقال:کلام بلیغ لكن لا من حیث أنه لفظ وصوت،بل باعتبار إفادته المعنی أي الغرض المصوغ له الکلام بالترکیب"[1] کہ بلاغت لفظ کی صفت ہے،مگر محض لفظ اور آواز ہونے کے لحاظ سے صفت نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ لفظ معنی مراد کو ادا کرے۔یعنی اگر لفظ معنی مراد کو ادا نہ کرے تو بلاغت کے متصف نہیں ہو سکتا۔ ان وجوہات کی بناء پر قرآنِ کریم کی تفسیر اجتہادی میں ان کا اور بعد میں آنے والوں کے استدلالات واستنباطات کا فرق اظہر من الشّمس ہے۔اگرچہ صحابہ کرام کی تفسیر اجتہادی کی حجیّت میں علمائے امت کے مابین اختلاف موجود ہے،لیکن بہرحال ان کی اس تفسیر کی قسم کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔ 3۔تفسیرلغوی صحابہ كرام کی تفسیر لغوی کلام کے ظاہری مطلب کو کہتے ہیں جس کو اہل زبان اپنے محاورہ میں بے تکلّف سمجھتے اور استعمال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بول چال میں ایک دوسرے کے مافی الضمیرپر اس کے کلام سے بے تکلف آگاہ ہو جاتے ہیں اور اس کا مطلب سمجھنے سے کوئی چیز حائل نہیں ہوتی،اگر بالفرض کسی موقع پر اشتراکِ لفظی یا کسی اور عارضہ کی وجہ سے لفظوں سے ظاہری مطلب نہ سمجھا جائے تو سیاق و سباق اور قرائن وغیرہ متکلّم کی مراد کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ اگر متکلّم اپنے ما فی الضمیرپر اطلاع دینے کی خاطر ایک بات کرے اور مخاطب باوجود اہل زبان ہونے کے اس کے مفہوم و مراد کو نہ اس کے الفاظ سے سمجھ سکے اور نہ قرائن وغیرہ سے تو وہ کلام سطحی ہےیایہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ساقط ہے،کیونکہ کلام کے بلیغ ہونے کا یہ معنیٰ ہے کہ فصیح ہونے کے ساتھ مقتضیٰ حال کےموافق ہو۔پھر مقتضیٰ حال مختلف ہےکیونکہ مواضعِ کلام مختلف ہیں مثلاً بعض جگہ تنکیر مناسب ہے اور بعض جگہ تعریف۔بعض جگہ اطلاق اور بعض جگہ تقیید،بعض جگہ لفظ کو مقدّم کرنا اور بعض جگہ موخّر،بعض جگہ ذکر کرنا اور بعض جگہ حذف،بعض جگہ کلام کومختصر کرنااوربعض جگہ طویل اور بعض جگہ عطف کرنا اوربعض جگہ ترکِ عطف،یعنی جیسا محل ہے اگر ویسی کلام کی جائے تو اچھی ہے ورنہ بری۔ مثلاً اگر اختصار کا محل ہے تو کلام کو مختصر کرناچاہئے اگر طول کا محل ہے تو طول دینا چاہئے اسی طرح اگر ’ذکی‘ سے ہم کلام ہو تو اعتبارات لطیفہ مناسب ہیں ورنہ عام اور موٹی بات کرے۔الغرض مذکورہ بالا باتوں کی جس قدر رعایت کی جائے تو کلام اسی قدر بلیغ ہوتی
Flag Counter