Maktaba Wahhabi

893 - 609
حرفِ آخر چنانچہ قرآنِ کریم کے ظاہری الفاظ کا جو مفہوم صحابہ کرام کے فہم کے مطابق ہو،وہ صحیح ہے اور جو خلاف ہو وہ غلط۔اس لیےکہ جن علوم کی بنیاد پر محاورۂ صحابہ سے اعراض کیا جاتا ہے وہ علوم تو کئی برس کے بعد مدون ہوئے ہیں،ان سے وہیں تک استدلال صحیح ہے،جہاں تک ان کے فہم کے خلاف نہ ہو۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأما لغة القرآن فينبغي أخذها من استعمال العرب الأول ولكن الاعتماد الكلّي على آثار الصحابة والتابعين،وقد وقع في نحو القرآن خلل عجيب وذلك أن جماعة منهم اختاروا مذهب سيبويه،وما لم يوافقه فهم يؤوّلونه وإن كان تأويلًا بعيدا،وهذا عندى غير صحيح فينبغي اتّباع الأقوى وما كان أوفق للسّياق والسّباق سواء كان مذهب سيبويه أو مذهب الفرّاء... وأما المعاني والبيان فهو علم حادث بعد انقراض الصّحابة والتّابعين فما يفهم منه في عرف جمهور العرب فهو على الرّأس وما كان من أمر خفي لا يدركه إلا المتعمّقون من أهل الفنّ فلا نسلم أن يكون مطلوبا في القرآن"[1] کہ لغت قرآن کو عرب اول کے محاورات سے اخذ کرنا چاہئے لیکن مکمل اعتماد بہرحال آثار صحابہ و تابعین پر ہی ہے۔اور قرآنِ مجید کی نحو میں عجیب خلل واقع ہوا ہے وہ یوں کہ بعض لوگوں نے سیبویہ کے مذہب کو اختیار کرلیا پھر جو لفظ مذہبِ سیبویہ کے خلاف آئے اس کو تاویل کرکے سیبویہ کے موقف کے مطابق بناتے ہیں خواہ وہ دور اَز صواب ہی نہ ہو۔یہ انداز میرے نزدیک درست نہیں،بلکہ چاہئے تو یہ کہ موقف زیادہ قوی اور سیاق و سباق کے مطابق ہو،اسی کی اتباع کی جائے خواہ وہ سیبویہ کا مذہب ہو یا فراء کا۔... جہاں تک معنی و بیان کا تعلق ہے تو یہ علوم صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے بعد وجود میں آئے ہیں لہٰذا ان علوم میں سے جو چیز جمہور عرب کے عرف میں سمجھی جاتی ہو اسے ہم قبول کرتے ہیں اورجس کو صرف متعمقین اہل فن سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہاںمقبول نہیں اورنہ ہی ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بھی قرآن مجید میں مطلوب ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے اس واضح بیان سے قواعد عربیہ و لغتِ عرب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور ان علوم کی اصل حقیقت واضح ہو جاتی ہے لیکن تفسیر میں لغت کو حدیث مبارکہ اور اقوال صحابہ پر فوقیت دینا معتزلہ کاموقف ہے اس لئے کہ معتزلہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں عربی لغت کو اصل اوّلین اساس قرار دیتے ہیں۔ الحاصل تفسیرکے سلسلہ میں علومِ عربیہ کی اہمیت وضرورت ماننا اور قرآن و حدیث کا صحیح مطلب سمجھنے میں ائمہ عربیہ کی درایتِ تفسیری سے بطور استدلال مدد لینا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری کو نہ ماننا اور انکار کرنا قابلِ افسوس ہے۔گویا ان کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باوجود اہل زبان ہونے کے،اپنی زبان میں مہارت نہیں رکھتے تھے کیونکہ جب علومِ عربیہ ائمہ لغت کی درایت تفسیری کے تابع ہیں،پس علومِ عربیہ کو ماننا اور قرآن و حدیث یاعرب اُول کی کلام کا صحیح مطلب سمجھنے میں بطور استدلال ان علوم سے کام لینا گویا ائمہ لغت کی درایت تفسیری کوماننا ہے اور اس سے بطور استدلال کام لینا ہے۔لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری کا انکار قابلِ تعجب ہے۔
Flag Counter