Maktaba Wahhabi

895 - 609
تفسیر نظام القرآن میں ادبِ جاہلی کے تفرّدات مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے اپنے مجموعہ تفاسیر(تفسیر نظام القرآن)میں متعدّد مقامات پر لغتِ عرب سے استدلال کیا ہے۔وہ کلامِ عرب اور عربی شاعری سے تفسیر قرآن میں استشہاد کرتے ہیں۔انہوں نے اپنے اس اصول کو بنیاد بنا کربعض مقامات پرجمہور مفسرین سے ہٹ کرمنفرد تفسیر کی ہے،جو ان کے تفرّدات میں شامل ہے۔ادبِ جاہلی سے متعلّق مولانا فراہی رحمہ اللہ کے تفرّدات میں سے چند ایک بطور نمونہ درج ذیل ہیں: 1۔﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ()إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ[1] کا مفہوم جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد یہ ہے کہ اس دن کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے،جو اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔اور انہوں نےاس آیتِ مبارکہ سے رویتِ باری تعالیٰ پر استدلال کیا ہے او راپنے اس دعویٰ کی تائید میں متعدد احادیث پیش کی ہیں،جن کی تفصیل کتبِ احادیث میں موجود ہے۔ جبکہ مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ نے جمہور مفسرین سے منفرد ہو کر اس آیتِ مبارکہ سے مراد یہ ہے کہ اس دن کچھ چہرے تروتازہ ہوں گے،اپنے رب کی رحمت کے منتظر ہوں گے۔اس طرح انہوں نے رؤیتِ باری تعالی کا انکار کردیا ہے اور اس سلسلہ میں وارد احادیث کی تاویل کی ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کا موقف مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ نے اس آیتِ مبارکہ﴿إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾کا ترجمہ ’’اپنے رب کی رحمت کے منتظر‘‘ کیا ہے اور قیامت کے دن مطلقاً رؤیت باری تعالی کا انکار کردیا ہے۔انہوں نے یہ ترجمہ لغتِ عرب کو بنیاد بنا کر کیا ہے۔ان کے نزدیک اس سے رؤیت باری تعالیٰ پراستدلال کرنا ذاتِ الٰہی میں پڑنا ہے،حالانکہ اللہ عزو جل کی ذات ہماری فکر و دانش کی رسائی سے اعلیٰ و ارفع ہے تو اس کی ذات کی تحقیق میں پڑنے سے کیا حاصل؟ فرماتے ہیں: ’’نظر یہاں انتظار کے معنی میں ہے۔قرآنِ مجید میں اس معنیٰ میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے،مثلاً اللہ عزو جل کا ارشاد ہے:﴿قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ﴾کہ کہا:ہم انتظار کریں گےکہ تم نےسچ کہا ہے یا تم جھوٹوں میں ہو۔دوسری جگہ فرمایا:﴿وَإِنِّي مُرْسِلَةٌ إِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ﴾کہ میں ان کے پاس ہدیہ دے کر بھیجتی ہوں او ر دیکھتی ہوں(انتظار کرتی ہوں)قاصد کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں۔ اس آیتِ مبارکہ میں﴿إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ﴾سے ایک گروہ نے رؤیت باری تعالیٰ پر استدلال کیا ہے۔اور بعضوں نے اس کی تردید کرنی چاہی تو یہ کہہ دیا کہ 'إِلَیٰ'،'آلاء' کی واحد ہے جس کے معنی نعمت کے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں محض وہم اور لغتِ
Flag Counter