Maktaba Wahhabi

908 - 609
ان اشعار کو غور سے پڑھو،یہ لوگ،جو واقعہ کے عینی شاہد ہیں،چڑیوں اور پتھروں کا ذکر ساتھ ساتھ کرتے ہیں،لیکن یہ کہیں نہیں کہتے کہ یہ پتھر چڑیوں نے پھینکے،بلکہ اس سنگساری کو ’حاصب‘ اور ’ساف‘ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،اس وجہ سے اب ان دونوں لفظوں کی حقیقت دریافت کرنی چاہئے۔‘‘[1] جمہور مفسرین کا موقف جمہور مفسرین نے مولانا فراہی رحمہ اللہ کے مخالف تفسیر کی ہے۔جمہور کے نزدیک لشکر ابرہہ پر سنگ باری پرندوں نے کی تھی اور اہل مکہ نے پہاڑوں میں پناہ لینے میں ہی عافیت سمجھی۔ان کے پنجوں اور چونچوں میں پتھر تھے وہ جس ہاتھی یا سوار پر پھینکتے وہ وہیں نیست و نابود ہوجاتا۔ذیل میں چند تفاسیر سے اقتباسات بطور نمونہ موجود ہیں۔ 1۔ امام طبری رحمہ اللہ سورۂ فیل کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں: ’’وہ پرندے سمندر کی طرف سے آئے تھے،ان کا رنگ سفید تھے،ہر پرندے کے پاس تین تین پتھر تھے۔دو دو پتھر ان کے پنجوں میں تھے اور ایک ایک پتھر ان کی چونچوں میں تھا۔وہ پتھر جس پر گرتا وہ وہیں نیست و نابود ہوجاتا۔عبدالمطلب نے ابرہہ سے گفتگو کے دوران اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو ابرہہ نے پوچھا!کیا آپ میرے ساتھ بیت اللہ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کریں گے حالانکہ وہ آپ اور آپ کے آباؤ اجداد کا دین ہے۔عبدالمطلب نے جواب دیا:إني أنا رب الإبل وللبیت ربّا سيمنعه کہ میں تو اونٹوں کا مالک ہوں،رہی بیت اللہ کی بات تو اس کا بھی ایک مالک ہے،جو عنقریب اس کی حفاظت کرے گا۔پھر عبدالمطلب اپنے اونٹ واپس لے کر قریش کے پاس آئے اور بیت اللہ میں کھڑے ہوکر ابرہہ کے خلاف بد دُعا کی۔پھر مکہ والوں کو مکہ سے نکل جانے اور پہاڑوں میں پناہ لینے کا حکم دے دیا۔اس کے بعد عبدالمطلب او ران کے ساتھ باقی قریشی پہاڑوں پر چلے گئے اور چھپ گئے او راس امر کا انتظار کرنے لگے کہ ابرہہ مکّہ میں داخل ہو کر اس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔[2] 2۔ حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ نے بھی تفصیلی واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ابرہہ نے عبدالمطلب کی بہت قدر کی،اپنے تخت سے نیچے اتر کر ان کے ساتھ نیچے بیٹھ گیا اور ان کو اپنی حاجت بیان کرنےکو کہا:عبدالمطلب نے کہا کہ میرے 200 اونٹ واپس کردیئے جائیں۔جس پر ابرہہ نے حیران ہوکر پوچھا:آپ نے بیت اللہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔جو تیرا اور تیرے آباؤ اجداد کا دین اور شرف ہے۔میں اسے منہدم کرنے آیا ہوں۔آپ صرف اپنےدو سو اونٹوں کا سوال کررہے ہیں۔اس پر عبدالمطلب نے کہا: "أنا ربّ هذه الإبل،وإن لهذا البيت ربا سيمنعه،قال:ما كان ليمنعه منّي،قال فأنت وذاك" کہ میں ان اونٹوں کا مالک ہوں،اس گھر کابھی ایک مالک ہے جو خود اس کی حفاظت کرے گا۔ابرہہ نےکہا:مجھے کوئی نہیں روک سکتا،عبدالمطلب نےکہا:یہ معاملہ تو جان اور وہ جانے۔ اس کے بعد بغوی رحمہ اللہ نے ابومسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ساحل سمندر سے پرندے نمودار ہوئے جن کے
Flag Counter