Maktaba Wahhabi

923 - 609
’’اگر آپ قرآن کی تلاوت کیجیے تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک مضمون مختلف سورتوں میں بار بار سامنے آتا ہے۔ایک مبتدی یہ دیکھ کر خیال کرتا ہے کہ یہ ایک ہی مضمون کا تکرار ہے لیکن قرآن پر تدبّر کرنےوالے جانتے ہیں کہ قرآن تکرارِ محض سے بالکل پاک ہے۔اس میں ایک بات جو بار بار آتی ہے تو بعینہٖ ایک ہی پیش وعقب اور ایک ہی قسم کے لواحق و تضمنات کے ساتھ نہیں آتی بلکہ ہر جگہ اس کے اطراف وجوانب اور ا س کے تعلقات و روابط بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔مقام کی مناسبت سے اس میں مناسب حال تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ایک مقام میں ایک پہلو مخفی ہوتا ہے دوسرے مقام میں وہ واضح ہو جاتا ہے۔ایک جگہ میں اس کا اصل رُخ غیر متعین ہوتا ہے،دوسرے سیاق وسباق میں وہ رخ بالکل معین ہو جاتا ہے۔بلکہ میرا ذاتی تجربہ اور مدتوں کاتجربہ تو یہ ہے کہ ایک ہی لفظ ایک ہی آیت میں بالکل مبہم نظر آتا ہے دوسری آیت میں وہ بالکل بے نقاب ہو جاتا ہے۔اسی طرح ایک جگہ ایک بات کی دلیل سمجھ نہیں آتی لیکن دوسری جگہ وہ بالکل آفتاب کی طرح روشن نظر آتی ہے۔‘‘[1] قرآن میں تدبّر مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ہاں قرآن کریم میں تدبّر واجب ہے اور اسکے حق میں انہوں نے متعدّد دلائل بھی دئیے ہیں جو درجِ ذیل ہیں: 1۔ اللہ عزو جل نے قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر تدبر فی القرآن کا صریح حکم دیا ہے۔[2] ﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ[3] ﴿أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا[4] ﴿أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ[5] ﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ[6] 2۔ اللہ تعالیٰ نے تدبّر،استدلال اور غور وفکر کےمواقع کی وضاحت تو فرمائی ہے لیکن نتائج تدبّر و استدلال کو واضح نہیں فرمایا۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کو جو اہل ہو،غور وفکر کے بعد اخذِ نتائج کا حق ہے۔[7] 3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح معلّمِ شرائع بنا کر بھیجے گئے تھے اسی طرح معلّمِ حکمت بھی بنا کر بھیجے گئے تھے اور تعلیمِ حکمت عقل کے استعمال اور غور وفکر کے بغیر ممکن نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت کی تعلیم بھی دی ہے،ترغیب بھی دی ہے اور حصولِ حکمت
Flag Counter