Maktaba Wahhabi

924 - 609
کی راہوں اور ذرائع کی طرف رہنمائی بھی فرمائی ہے۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی صحابہ کرام کے سامنے ایک مسئلہ رکھتے اور اس پر انہیں آراء کے اظہار کا موقع دیتے،حدیث مبارکہ میں ہے: عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم:((إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا،وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ،فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟))فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي. قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ:وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ،ثُمَّ قَالُوا:حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ!؟ قَالَ:((هِيَ النَّخْلَةُ))[2] کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے،اس کی مثال مسلمان کی سی ہے۔مجھے بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ لوگ صحرائی درختوں کا ذکر کرنے لگے۔سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرا ذہن کھجور کے درخت کی طرف گیا لیکن میں شرم کی وجہ سے کہہ نہیں سکا۔لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!آپ بتادیجئے کہ وہ کون سا درخت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ کھجور کا درخت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے سے بھی منع فرمایا تھا۔منع سوال کا مقصد دوسرے مصالح کے علاوہ یہ تھا کہ لوگ خود بھی عقل اور سمجھ کو استعمال کریں۔[3] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآنی آیات کے معانی ایک دوسرے سے پوچھتے تھے اور خود بھی ان پر غور و تدبّر کرتےتھے۔[4] سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ کی ایک جماعت سے دریافت فرمایا کہ سورۂ نصر میں کس چیز کی طرف اشارہ ہے؟ تو سب خاموش رہے۔بعد ازاں سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے متعلّق بتایا،جس پر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ان کی تصویب فرمائی۔[5] قرآن قطعی الدلالۃ ہے مولانا فراہی رحمہ اللہ کا کہناہے کہ ایک آیت ایک ہی تاویل کی متحمل ہو سکتی ہے۔اس لیے تفسیر کے تمام اصول و آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت کے کسی ایک مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہئے۔بکثرت اقوال نقل کرنے سے اختلافات کے دروازے وا ہوتے ہیں اور معاندین کو موشگافی کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بکثرت اقوال نقل کرنے کے اسباب و علل کا بھرپور تجزیہ کیا ہے۔لکھتے ہیں: 1۔ اکثر طبیعتیں اجمال پر قناعت نہیں کرتیں اور وہ تفصیل کی طالب ہوتی ہیں،مثلاً ان کے سامنے اگر قیامت کا ذکر آتا ہے تو فوراً یہ سوال کر بیٹھتی ہیں کہ کب آئے گی،کیوں آئے گی،اس کی علامات کیا ہیں؟
Flag Counter