Maktaba Wahhabi

929 - 609
تفسیر القرآن بالقرآن کی مثالیں مولانا فراہی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر نظام القرآن میں جگہ جگہ نظائر قرآنی سے قرآن کی تفسیر کی ہے،بعض مثالیں حسبِ ذیل ہیں: 1۔ قومِ لوط کی تباہی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک جگہ﴿حِجَارَةً مِنْ طِينٍ[1](مٹی کے پتھر)کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور دوسری جگہ﴿حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ[2](سنگ گل کے پتھر)آیا ہے جو اول الذّکر کی وضاحت کر رہا ہے۔[3] 2۔ نماز استعانت باللہ کے ہم معنیٰ ہے۔اس حقیقت تک ہم اس طرح پہنچے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو حکم دیا: ﴿اسْتَعِينُوا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوا[4] کہ اللہ سے مدد چاہو اور ثابت قدم رہو۔ دوسری جگہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا: ﴿اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ[5] کہ مدد چاہو صبر سے اور نماز سے۔[6] 3۔ اللہ عزو جل کا ارشاد ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ[7] کہ اس نے موت اور زندگی پیدا کی تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ غالب بخشنے والا ہے۔ موت تنبیہ اور نصیحت کرنے والی ایک چیز ہے لیکن زندگی لذّتوں سے بھرپور ہے۔اگر خواہشات نہ ہوتیں تو لوگ نہ حق سے غافل ہوتے اور نہ اس سے پھرتے۔اور اگر موت نہ ہوتی تو نہ وہ غفلت سے نکلتے اور نہ موت کے بعد کی زندگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے۔مجھےآیت کی اس تاویل کی طرف پہلے از خود رہنمائی ہوئی،پھر اس کی ایک نظیر بھی میری نگاہ سے گزری۔وہ آیت یہ ہے: ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا()وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيدًا جُرُزًا[8] کہ جو چیز زمین پر ہے ہم نے اس کو زمین کے لیے آرائش بنایا ہے تاکہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ کون ان میں اچھے عمل کرنے والا ہے۔
Flag Counter