Maktaba Wahhabi

935 - 609
تفسیر قرآن بذریعہ قرآن قرآنِ کریم کی تفسیر در اَصل مرادِ الٰہی کو اُجاگر کرنے سے عبارت ہے۔اس باب میں اگر کسی کو قطعیت وحتمیت کا درجہ حاصل ہے،وہ تو صرف پیغمبر معصوم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ارباب تفسیر کے ہاں کلامِ مجید کی شرح ووضاحت کے جو مختلف اسالیب رائج ہیں،ان میں اوّلین اصول یا قاعدہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا مفہوم،اسی کے ذریعے جاننے کی کوشش کی جائے کہ إن القرآن يفسّر بعضه بعضًا. بلا شبہ یہ ضابطہ علمائے مفسرین کے نزدیک متفق علیہ ہے،لیکن اس کے اطلاق وتفہیم میں،خصوصاً متاخّرین کے ہاں،ایک التباس واقع ہو گیا ہے۔وہ اس طرح کہ عموماً یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جب قرآنِ کریم کی کسی آیت کا کوئی مفہوم کسی مفسر کو قرآن کی دوسری آیت سے مل جائے،تو اب یہ گویا حتمی تفسیر ہے اور تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کا حقیقی مصداق۔اس کے بعد کسی اور شے کو دیکھنے کی حاجت نہیں۔حتیٰ کہ احادیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یا اقوال صحابہ(خصوصاً وہ جو مرفوع حکمی کا درجہ رکھتے ہوں)کی جانب رجوع کرنے کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اصل کی یہ تعبیر قطعی غلط اور گمراہ کن ہے۔کیونکہ جس ہستی پر قرآن پاک نازل ہوا اور جن کے حالات کی بنیاد پر آیاتِ قرآنی کو اُتارا گیا اور جو اس کے پس منظر اور اسباب ووجوہ سے سب سے بڑھ کر واقفیت رکھتے تھے،انہیں تعیینِ مطالبِ قرآن میں کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔امرِ واقعہ سے جو شے مطابقت رکھتی ہے وہ محض یہ ہے کہ مرادِ الٰہی کو جاننے کیلئے اس ہستی کی جانب رجوع ناگزیر ہے جس کا قلبِ اطہر مہبط وحی ہے۔تفسیرِ قرآن میں بھی اصل حیثیت جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے۔فلہٰذا تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کے نام پر حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ تفاسیر جنہیں تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کا خصوصیت سے دعویٰ ہے وہ بھی قرآنِ کریم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ نبوی زندگی میں ڈھال کر ہی اس کی تفسیر کرنے پر مجبور ہیں۔اور کیوں نہ ہوں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصدِ بعثت ایک جملہ میں ادا کیا جائے تو وہ ’تبیین قرآن‘ ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ[1] اس کی ایک بڑی معقول اور ٹھوس بنیاد بھی ہے۔نگاہِ تعمّق سے جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ کسی آیت کو قرآنِ کریم کے کسی مقام کی تفسیر قرار دینا مفسر کا اپنا فہم واستنباط ہے،جو ظاہر ہے،قطعی نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ متعدّد مفسرین کےہاں تفسیرقرآن بذریعہ قرآن میں تنوّع نظر آتا ہے۔ یہ پہلو بھی خصویت سے لائقِ توجہ ہے کہ جادۂ مستقیم سے ہٹے ہوئے گروہ بھی زیادہ تر قرآن کی تفسیر خود قرآن ہی سے کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔کیا ہر ایک کے تفسیر قرآن بذریعہ قرآن کو قطعی سمجھ کر ان کے دعاوی کو بھی قبول کر لیا جائے گا؟ اس باب میں
Flag Counter