Maktaba Wahhabi

964 - 609
آتی ہے،کوئی دوسری نہیں آتی۔اسی طرح ایک خاص جنسی بھی ہوتا ہے یعنی وہ لفظ جو ایک ہی جنس کے معنی و مفہوم کی ادائیگی کے لیے وضع ہوا ہو جیسے لفظ ’انسان‘ ہے۔ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ خاص نوعی اور خاص جنسی اگرچہ اپنی نوع و جنس کے اعتبار سے تو خاص ہیں لیکن یہی لفظ اپنے افراد کے اعتبار سے عام ہے۔ لفظِ عام کی اپنے معنی پر دلالت لفظِ عام کی اپنے معنی پر دلالت کے بارے میں فقہاء واصولیین کا اختلاف ہے۔جمہور فقہاء مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ ایسا عام جس کی تخصیص نہ ہوئی ہواس کی دلالت اپنے معنی پر ظنی ہوتی ہے،جبکہ احناف اور معتزلہ کا موقف یہ ہے کہ عام کی تخصیص سے پہلے اپنے معنی پر دلالت قطعی ہوتی ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: "فقال أکثر الفقهاء(المالكية والشافعية والحنابلة):دلالة العام على جميع أفراده ظنّية. والمذهب المختار لدی الحنفيّة والمعتزلة،وهو المنقول عن الشافعى:أن دلالة العام قطعية إذا لم يخص منه البعض،فإن خص منه البعض فدلالته على الباقي ظنية،ومعنى القطع:انتفاء الإحتمال الناشئ عن دليل،لا انتفاء الإحتمال مطلقا." [1] کہ اکثر فقہائے مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کا کہنا یہ ہے کہ عام کی اپنے جمیع افراد پر دلالت ظنی ہوتی ہے جبکہ احناف اور معتزلہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ عام کی تخصیص سے قبل اس کی اپنے افراد پر دلالت قطعی ہوتی ہے اور ایک ایسا قول امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف بھی منسوب ہے،اور اگر عام کی تخصیص ہو جائے تو باقی پر اس کی دلالت ظنی ہوتی ہے۔اورقطعیت سے یہاں مراد یہ ہے کہ لفظ عام میں کسی دلیل کی وجہ سے کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہوتا،نہ کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں اصلا کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا۔ احناف کا کہنا ہے کہ لفظ عام کو اہل زبان نے عمومی معنی کے لیے وضع کیا ہے لہٰذا اس سے مراد قطعی طور پر اس کا عمومی معنیٰ ہی ہو گا۔جبکہ جمہور کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی عام ایسا نہیں ہے کہ جس کی تخصیص موجود نہ ہو،یہاں تک کہ بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کے عام میں صرف ایک آیت ایسی ہے کہ جس کی تخصیص نہیں ہے ورنہ ہر عام کی کوئی نہ کوئی تخصیص ضرور موجود ہے۔اسی وجہ سے اصولیین اور فقہاء میں یہ قول بہت معروف ہے کہ ما من عام إلا و قد خصّ منه البعض یعنی کوئی عام ایسانہیں ہے کہ جس سے کسی چیز کو خاص نہ کیا گیا ہو۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ(631ھ)لکھتےہیں: "حتّی أنه قد قیل لم یرد عام إلا وهو مخصّص إلا في قوله تعالى:﴿وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ"[2] کہ یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی عام ایسا نہیں ہے کہ جس کا کوئی مخصص نہ ہو سوائے اللہ تعالىٰ کے اس ارشاد کے کہ اللہ عزو جل ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
Flag Counter