Maktaba Wahhabi

968 - 609
﴿يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ[1] کہ وہ(یعنی فرعون)ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑدیتا تھا۔ اس آیت میں﴿يُذَبِّحُ﴾کا لفظ خاص ہے جو واحد مذکر غائب کے فعل کے لیے اہل زبان نے وضع کیا تھا اور جب اس لفظ کو ایک ہی فرد کے فعل کے لیے استعمال کیا جائے گا تو یہ اس کا قطعی الدلالۃ مفہوم ہو گا اور اس لفظ کا اپنے موضوع لہ معنی میں استعمال حقیقی استعمال کہلائے گا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں یہ لفظِ خاص اپنے موضوع لہ معنی یعنی واحد مذکرغائب کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ یہاں یہ جمع مذکر غائب یعنی فرعون کے لشکر کے سپاہیو ں کے لیے استعمال ہوا ہے،کیونکہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرنے والے اصلا فرعون کے لشکر کے سپاہی تھے نہ کہ اکیلا فرعون،جیسا کہ قرآن کریم نے کئی دوسرے مقامات پر اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ[2] کہ وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑدیتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں﴿يُذَبِّحُ﴾سے صرف فرعون کو مراد لینا عقلاً بھی محال ہے۔پس اس آیت میں یہ لفظ اپنے موضوع لہ معنی میں استعمال نہ ہو گا اور واحد مذکر غائب کے صیغے کا جمع مذکر غائب کے لیے یہ استعمال مجازی کہلائے گا۔ مذکورہ بالا مثال صرف یہ سمجھانے کے لیے دی گئی ہے کہ قرآن کریم میں خاص کے قطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے صرف ایک ہی معنی مراد ہو سکتا ہے،کوئی اور معنی مراد ہی نہیں ہو سکتا بلکہ خاص کے قطعی الدلالۃ ہونے کا معنی یہ ہے کہ جب تک کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو تو اس وقت تک لفظِ خاص اپنے معنی میں قطعی اور یقینی ہوتا ہے اور اس سے مراد صرف وہی معنی ہوتا ہے کہ جس کے لیے اسے اہل زبان نے وضع کیا ہے،اسی نکتے کی طرف ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: "فالمراد بالقطع هنا أنه لا یحتمل غیر معناه احتمالا ناشئا عن دلیل ولیس المراد به أنه لایحتمل غیر معناه أصلًا." [3] کہ قطعیت سے یہاں مراد یہ ہے کہ لفظِ خاص میں کسی دلیل کی وجہ سے کسی اور معنی کا احتمال نہیں ہوتا ‘نہ کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس میں اصلا کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں ہوتا۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ اور قرآن کریم کی قطعیت مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے معنیٰ ومدلول میں بالکل واضح،دوٹوک اور قطعی ہے۔اس کے ایک ایک لفظ کی اپنے معانی پر دلالت قطعی ہے اور وہ اپنے معانی ومفاہیم کے لحاظ سے بالکل مستقل اور خود مکتفی ہے۔مولانا فرماتے ہیں:
Flag Counter