Maktaba Wahhabi

986 - 609
لہٰذا مفسر کو چاہئے کہ قرآنِ کریم میں غور کرتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی تفسیروں کو سامنے رکھے۔اگر اس کااجتہاد ان سے متصادم ہو تو اس سے رجوع کرلینا چاہئے اور حدیث مبارکہ واقوال صحابہ کے مطابق اس کی تفسیر کرنی چاہئے۔ مولانافراہی رحمہ اللہ نے جہاں جہاں جمہور مفسرین سے منفرد مؤقف اختیارکیا ہے وہاں اپنے دلائل میں نظمِ قرآن،لغتِ عرب اور نظائر قرآنی سے استدلال کیا ہے۔قرآنی آیات سے استدلال کرنے میں ان کا اجتہاد شامل ہے جس کا انہوں نے اپنی عقل وفہم کےمطابق استنباط کیا ہے۔ذیل میں ہم چند مثالیں لکھ کر ان کی وضاحت کرتے ہیں: 1۔﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ[1] کا مفہوم مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ نے اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہاں﴿يَحُولُ﴾سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزو جل تمہارے دلوں کے رازوں کو جانتا ہے،کیونکہ یہاں آخر میں﴿تُحْشَرُونَ﴾ہے،اور نظائرِ قرآنی میں ’حشر ‘ کا ذکر ’تقویٰ‘ کے ساتھ كثرت سے ہوا ہے[2]اور ’تقویٰ‘ اللہ عزو جل کے تصورِ علم کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔جبکہ جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں﴿يَحُولُ﴾کا معنی حائل ہونا ہے،یعنی اللہ عزو جل بندے او راس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کو اس کے ارادہ سے روک دیتا ہے۔ مولانا فراہی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’جب کلام کئی احتمالات رکھتی ہو،تو ان احتمالات میں سے اس احتمال کو اخذ کیاجائے گا جس کی نظیرباقی قرآن مجید میں موجود ہوگی۔جس کی قرآنِ مجید موافقت نہ کرے اسے ترک کردیا جائے گا،جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾اس میں دو تاویلیں ہیں: 1۔ اللہ عزو جل تمہارے ضمیر سے خود تم سے زیادہ واقف ہے۔2۔اللہ عزو جل آدمی کو اس کے ارادہ سے روک دیتا ہے۔ جہاں تک پہلی تاویل کا تعلّق ہے اس کی نظیر قرآن میں موجود ہے۔نظم بھی اس کی تائید کرتا ہے۔یہ نظم قرآنِ مجید کے دوسرے مقامات سے مشابہت بھی رکھتا ہے۔چنانچہ بے شمار مقامات پر لفظ﴿تُحْشَرُونَ﴾کو تقویٰ کے ساتھ لایا گیا ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے اللہ عزو جل کے تصورِ علم سے۔گویا آیت نے یہ تعلیم دی کہ اللہ سے ڈرو کیونکہ وہ تمہارے بھیدوں سے واقف ہے اور تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے۔اس تاویل کی معنیٰ ونظم میں دونوں اعتبارات سے مشابہت موجود ہے۔ جہاں تک دوسری تاویل کا تعلّق ہے تو اس کی بنا لوگوں نے ایک لفظی مشابہت پر اٹھائی ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:﴿وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ[3] اگرچہ لفظی مشابہت کے بھی تاویل کی ایک بنیاد ہونے میں شبہ نہیں لیکن مذکورہ دلائل کی موجودگی میں یہ بنیاد کمزور ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لفظ مشترک ایسے مختلف معانی کے لئے آسکتا ہے جن کا فیصلہ سوائے سیاق کلام اور
Flag Counter