Maktaba Wahhabi

997 - 609
لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا()قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا[1] کہ کہا اے ابراہیم!کیاتم میرےمعبودوں سے برگشتہ ہورہے ہو؟ اگر تم اس سے باز نہ آئے تو میں تم کوسنگسار کردوں گا اور تو میرے سامنے سے دور ہو،ابراہیم نےجواب دیا:سلام علیک!میں آپ کے لئے اپنے رب سے مغفرت کی دعا کروں گا،وہ میری بڑی خبر رکھنے والا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم کے نقشِ قدم پر چلنے کا حکم ہواتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے تمام خصائل و خصائص کے وارث تھے اور منکرین حق کی دلآزاریوں او ربدزبانیوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تعلیم دی گئی تھی:﴿وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا[2] کہ ان کی باتوں پر صبر کرو،او ران کو خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو۔پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اعلیٰ او رپاکیزہ روش کو چھوڑ کو کوئی اور روش اختیار فرماتے۔‘‘[3] یہاں غالبًا مولانا فراہی رحمہ اللہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ[4] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں اللہ عزو جل کے مبارک الفاظ ہیں،بہرحال تفسیرِ قرآن بذریعہ قرآن کے اصول کے تحت ان کا مذکورہ استدلال ایک وہم اور جمہور مفسرین کی تفاسیر کے صریح خلاف ہے۔جمہور مفسرین نے اس کو ابولہب کے خلاف بددُعا ہی قرار دیا ہے۔[5] 8۔قربانی کی حقیقت؟ مولانا حمیدالدین فراہی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الرّأي الصّحیح في من هو الذّبیح میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے کہ ذبیح سیدنا اسماعیل تھے یا سیدنا اسحاق ؟ پھر تورات اور قرآن کریم کی تیرہ تیرہ(کل چھبیس)دلیلوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ ذبیح سیدنا اسمٰعیل تھے۔ اس کتاب میں مولانا نے قربانی کی حقیقت اور اسلام میں اس کی اہمیت پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔اس بارے میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کا مؤقف یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم نے اسماعیل کو ذبح کرنے کا جو خواب دیکھا تھا،وه حقيقی نہیں بلکہ تمثیلی تھا،اس کی تعبیر یہ تھی کہ اسمٰعیل کو اللہ کی نذر اور اس کے گھر کا خادم بنا دیا جائے۔سیدنا ابراہیم نے بعینہٖ اس کی تعمیل کرنا چاہی وہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ خواب حقیقی تھا اور واقعی ہی اللہ عزو جل نے سیدنا ابراہیم کو اپنے بیٹے کی شہ رگ کاٹ کر جان کی قربانی کا حکم دیا تھا،تو لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ عزو جل نے اپنا یہ حکم عمل سے پہلے ہی منسوخ کر دیا۔[6]فرماتے ہیں: "يبعد جدًا عن سنّة الشّريعة الإلهية أن يأمر اللّٰه عبدا بذبح ولده،ولكن الرّؤيا بذلك غير بعيد،فإن
Flag Counter