Maktaba Wahhabi

115 - 148
ابوحیان اندلسی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’البحر المحیط‘‘ میں اس قراء ۃ کا یہ مفہوم ذکر کیا ہے کہ’’قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے اپنے اس دعوی ٰ میں ان سے جھوٹ بولا تھا کہ وہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے وحی اور مددلے کر آئے ہیں۔اور ان کے دشمن اگر ایمان نہ لائے تو سزا سے دو چار ہوں گے۔‘‘ دوسری توجیہ:’’وَظَنُّوا‘‘،’’أَنَّہُمْ‘‘ اور ’’کُذِبُوا‘‘ تینوں مقامات پر ضمیرکا مرجع جھٹلانے والی قوم کو قرار دیا جائے۔اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ’’قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں کی طرف سے ان سے جھوٹ بولا گیا۔رسولوں نے اپنے دعوی ٰنبوت،ان کے خلاف اللہ کی مدد اور ایمان نہ لانے والوں پر عذاب کے نزول کے بارے میں ان سے جھوٹ بولا ہے۔لہٰذا انہوں نے رسولوں کی تصدیق سے انکار کر دیا۔ان دونوں توجیہات میں لفظ ’ظن‘ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔‘‘ تیسری قراء ۃ ’’کَذَبُوا‘‘ کی توجیہات: ’’البحر المحیط‘‘ میں ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ نے اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ’’قوم نے یہ گمان کیا کہ رسولوں نے اللہ کے عذاب کا جو وعدہ کیا تھا،اس میں انہوں نے ان سے جھوٹ بولا۔‘‘ اور امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تاویل میں لکھتے ہیں:’’جب اللہ تعالیٰنے اپنا فضل کرتے ہوئے قوم سے عذاب ٹال دیا تو انہوں نے گمان کیا کہ رسولوں نے ان سے اس سلسلہ میں جھوٹ بولا تھا۔ اور اس کا یہ معنی بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ رسولوں کو یقین ہو گیا کہ قوم نے ان کی رسالت کا انکار کر کے اللہ پر جھوٹ بولا ہے۔‘‘ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس آیت کی تاویل میں لکھا ہے:’’ظَنُّوا‘‘ کی ضمیر امتوں کے لیے ہے جبکہ ’’أَنَّہُمْ قَدْ کَذبُوا‘‘ کی ضمیر رسولوں کے لیے ہے۔معنی یہ ہے کہ قوم نے یہ گمان کیاکہ رسولوں نے ان سے مدد اور عذاب کے وعدے میں جھوٹ بولا تھا۔اس کے برعکس یہ بھی کہا جا سکتا ہے ہے کہ ’’ظَنُّوا‘‘ کی ضمیر رسولوں کے لیے ہے۔ اور ’’أَنَّہُمْ قَدْ کَذبُوا‘‘ کی ضمیر اقوامِ رسل کے لیے ہے۔اس لحاظ سے معنی یہ ہو گا کہ رسولوں نے یہ گمان کیا کہ قوم نے
Flag Counter