Maktaba Wahhabi

142 - 148
ہے،کیونکہ کوئی عقل مند یہ تصورنہیں کر سکتا کہ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ جیسا محدث اورورع و تقوی میں ممتاز انسان عدالت و ثقاہت میں یگانہ روزگار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام،اور ائمہ قراء کی مخالفت کرتے ہوئے بغیرنقل و روایت کے محض اپنی مرضی اور اختیار سے قراء ت کی اجازت دے گا۔ گولڈ زیہر اپنی کتاب کے صفحہ 50،51پر لکھتا ہے: ’’قراءات میں آزادی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔یہاں مشہور متن کے خلاف ایسی قراءات بھی موجودہیں جن کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءات ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی کو اس طرز کے بغیر روایت کرنا بھی جائز ہے،جس طرز پر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں پہنچایا تھا۔چنانچہ سورۃ التوبہ کی آیت﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُم﴾ میں مقبول قراء ۃ فاء کی پیش کے ساتھ ہے،لیکن اس کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ فاء کی زبر کے ساتھ قراء ۃ:’’مِنْ أَنْفَسِکُم‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی قراء ۃ ہے۔ اس سلسلہ کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے رضاعی بھائی تھے۔فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے دین ِاسلام ترک کر دیا۔ پھر دوبارہ اسلام قبول کرنے کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک اعلی منصب پر فائز ہوئے۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہ چکے تھے۔ ان کے بارے روایت کیا گیا ہے کہ قریشیوں کے سامنے فخر سے کہا کرتے تھے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرف چاہتے پھیر دیتے تھے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھے ’’عزیز حکیم‘‘ لکھواتے،میں پوچھتا:کیا ’’علیم حکیم‘‘ لکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:ہاں دونوں طرح درست ہے۔‘‘
Flag Counter