Maktaba Wahhabi

144 - 148
میں کسی مخصوص قراء ت کا التزام کیا ہو اور کثرت کے ساتھ اسے پڑھا ہو۔ اور جہاں تک فاء کی زبر کے ساتھ ’’أنفَسکم‘‘ کی قراء ۃ کا تعلق ہے،تو اگرچہ اس کا مفہوم درست ہے،لیکن یہ قراء ت تواتر یا مشہور ذریعہ سے ثابت نہیں ہے،لہٰذا قرائے عشرۃ میں سے کسی نے بھی اس کو نہیں پڑھا۔ اور رہا عبد اللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو اس کے خود ساختہ ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کی اس دور کی داستان ہے جبکہ وہ مرتد ہو چکا تھا اور اسلام و قرآن کا دشمن تھا [1] آپ خو د فیصلہ کیجئے کہ کیا اسلام کے ایک کٹر دشمن کی بات اسلام ہی کے خلاف بطور حوالہ پیش کرنا بددیانتی کا مظہر نہیں ہے؟ گولڈ زیہر کا خیالِ خام اور اس کا تجزیہ اپنی کتاب کے صفحہ 52پر گولڈ زیہر نے یہ واقعہ نقل کیا ہے: ’’سورۃالواقعہ کی آیت 26 میں جنت کی نعمتوں کے تذکرہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ اصحاب یمین کو ’’ الطلح‘‘ کی نعمت سے نوازا جائے گا۔لیکن یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’الطلح‘‘ کیا چیز ہے ؟ یہ درحقیت﴿طلع منضوذ﴾ہے اور بطورتائید انہوں نے سورہ الشعراء کی آیت148﴿وَنَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِیمٌ﴾پڑھی۔ اس پر حاضرین نے کہا:کیا آپ قرآن کریم کو مذکورہ معنی کی طرف پھیرنا چاہتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا:إن القرآن لا یہاج الیوم ولا یحول۔ آج قرآن کو نہ کہیں پھیرا جا سکتا ہے نہ اس میں کسی قسم کا اضطراب پیدا کیا جا سکتا ہے۔‘‘ [2] تجزیہ: اس واقعہ سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جو
Flag Counter