Maktaba Wahhabi

145 - 148
سبقتِ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قریبی تعلق سے بہرہ مند،قرآنی اسرارو مقاصد کے شناور اور کتاب اللہ کے بارے میں غیرت ایمانی سے سرشار تھے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن میں ایک جملہ یا کلمہ بلکہ ایک حرف کی تبدیلی کو بھی گوار نہیں کیا،باوجودیکہ ان کے نزدیک ’’طلح‘‘ کی قراء ت عین کے ساتھ ’’طلع‘‘ بھی ممکن ہو سکتی تھی کہ اس کی نظیر اللہ کے قول﴿وَ نَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِیْمٌ﴾ میں موجود ہے۔ اور ان کا یہ فرمان:إن القرآن لا یہاج الیوم ولا یحوّل ’’آج قرآن کو بدلا جا سکتا ہے نہ اس میں کسی قسم کا اضطراب پیدا کیا جا سکتا ہے‘‘،اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ قراءات کا سرا سر انحصار نقل و سماع پر ہے اور قراءات کے معاملے میں ذاتی پسند و ناپسند کی آزادی قطعاً گوارا نہیں ہے۔یہ واقعہ تو مصنف موصوف کے خلاف دلیل بن رہا ہے،مصنف کا اسے اپنے حق میں استعمال کرنا عجیب حرکت ہے۔ گولڈ زیہر اپنی کتاب کے صفحہ 53 پر لکھتا ہے: ’’حدیث:((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)) کے صحیح مفہوم کے بارے میں خود علمائے اسلام کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔اس کی تفسیر میں 35 آراء ذکر کی گئی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کا اختلافِ قراءات کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘‘ تجزیہ:…گولڈزیہر کی یہ بات کہ ’’اس حدیث کا اختلافِ قراءات کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘‘ انتہائی تعجب انگیز اور حیرتناک ہے۔ ناطقہ سربگریباں ہے،اسے کیا کہیے! قراءات قرآنیہ کی اصل بنیاد اور مرکز و محور یہی حدیث ہی تو ہے۔اور یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ اس پر تمام علمائے اسلام کا اجماع ہے۔ امت مسلمہ کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں۔اس واضح حقیقت کے باوجود گولڈ زیہر کا یہ کہنا کہ اس کا اختلافِ قراءات سے کوئی تعلق نہیں ہے،بہت بڑا جھوٹ ہے۔پھر یہاں گولڈ زیہر کے بیان میں واضح تضاد کی نشان دہی ہوتی ہے۔صفحہ 53 کے شروع میں وہ خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں
Flag Counter