Maktaba Wahhabi

76 - 148
اور ہٹ دھرمی ہے۔ گولڈ زیہر سورۃ البقرۃ کی مذکورہ بالا آیت:54 کے ضمن میں مزید لکھتاہے: ’’قدیم مفسرین،جن میں قتادۃ بصری (متوفی117ھ) بھی شامل ہیں،نے سوچا کہ یہاں اس معاملہ میں ایک دوسرے کو قتل کرنایا ان میں سے مجرموں کو قتل کرنا چونکہ سنگدلی ہے یا یہ سزا ان اسرائیلیوں کے جرم سے مطابقت نہیں رکھتی تو انہوں﴿فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُم﴾ کی بجائے اوپر کے دو نقطوں کو نیچے منتقل کر کے ’’فأقیلوا أنفسکم‘‘ پڑھا دیا۔جس کا معنی یہ ہے کہ اپنے جرم پرندامت کے ساتھ توبہ کرو۔گزشتہ مثالوں کے برعکس جن میں اختلافِ قراء ت کا اصل سبب رسم سے متعلق بعض فنی الجھاؤ ہیں،یہ مثال فی الواقع اس بات کی دلیل ہے کہ پیش نظر خیالات نے بھی اختلاف قراء ت میں کردار ادا کیا ہے۔‘‘ گولڈ زیہر کی رائے کا تجزیہ: گزشتہ صفحات میں ہم قطعی دلائل سے یہ حقیقت واضح کر چکے ہیں کہ قراءات قرآنیہ کا اصل سرچشمہ نقلِ تواتر ہے جو بغیر کسی تعطل کے نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں اور مستند قراءات کے اس پورے سلسلے میں رائے اور اجتہاد کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہے۔یہ قراءات قرآنیہ دورِ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دورِ عثمان رضی اللہ عنہ میں تدوینِ قرآن سے پہلے بھی موجود تھیں،لہٰذا مصاحف عثمانیہ کا رسم،ان کی ہیئت و ترکیب اور ان کانقطوں اور حرکات سے خالی ہونا،اختلافِ قراءات کا باعث یقینا نہیں ہے۔ اور جہاں تک تعلق ہے گولڈ زیہر کی طرف سے پیش کردہ امام قتادۃ رحمہ اللہ کی طرف منسوب قراء ۃ ’’فأقیلوا أنفسکم‘‘ کا،تو حقیقت یہ ہے کہ ثقہ اور ماہرینِ فنِّ قراء میں سے کسی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ نہ اس کی کوئی سند ہے کہ جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ لہٰذا یہ قراء ۃ سراسر بے بنیاد اور خود ساختہ ہے۔ نیزامام قتادۃ بصری رحمہ اللہ کسی سلسلہء قراء ت کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔ سوائے اس ایک قراء ۃ کے کوئی قراء ت ان کی طرف منسوب ہے،نہ اس
Flag Counter