Maktaba Wahhabi

78 - 148
غیرمعروف قراء ۃ ہے جوامام قتادۃ رحمہ اللہ سے ثابت نقلِ صحیح کے خلاف ہے،لہٰذا اس قراء ۃ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ (۶)۔ سورۃ الفتح کی آیت﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا﴾ کے بارے میں گولڈ زیہر کی گفتگوکا ماحاصل یہ ہے کہ ’’﴿وَتُعَزِّرُوہُ﴾ میں (ہ) ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی مدد کرو۔ چونکہ یہ معنی اللہ تعالیٰ کی عظمتِ شان کے منافی تھا،اس لیے کہ وہ اپنے تمام بندوں سے بالکل بے نیاز ہے۔وہ کسی مددو اعانت کا قطعاً محتاج نہیں،لہٰذا بعض لوگوں نے﴿تُعَزِّرُوہُ﴾ کو بدل کر زا ء کے ساتھ ’’تعززوہ‘‘ پڑھ دیا،جس کا معنی یہ ہے کہ تم اس کی تعظیم کرو۔اس لیے کہ یہ معنی اللہ کی شان کے مطابق ہے۔‘‘ پھرگولڈ زیہر کو احساس ہوا کہ قرآن کریم میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جن میں بندوں کی طرف سے اللہ کی مدد و نصرت کا مفہوم پایا جاتا ہے،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَنْصُرُہُ﴾ (الحج:40)،﴿إِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ﴾ (محمد:7) اور﴿وَیَنْصُرُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ﴾ (الحشر:8) تواس نے مذکورہ تینوں آیات کا یہ جواب دیا کہ لفظ ’’نصر‘‘ اگرچہ مدد و مساعدت کا ہم معنی ہے،لیکن بعض دفعہ یہ ظاہری اور مالی مدد کے بجائے نصرتِ ادبی،یعنی اطاعت و فرمانبرداری کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے،جیسا کہ لفظ ’’عزر‘‘ یہاں ظاہری اور مالی مدد کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔انتہی گولڈ زیہر کی رائے کا تجزیہ: پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ آیت کریمہ کے تینوں الفاظ ’’تُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ وَتُسَبِّحُوہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیر کے مرجع کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض مفسرین کی رائے میں پہلے دو الفاظ ’’تُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ‘‘ میں ضمیر کا مرجع ’’ورسولہ‘‘ یعنی رسول
Flag Counter