Maktaba Wahhabi

85 - 148
امت مسلمہ کو بازنطینی حکومت کے مقابلہ میں حاصل ہوئی تھی۔اور ہمارے خیال میں مشہور قراء ۃ اور اس کی مخالف قراء ۃ میں بہت زیادہ معنوی تضاد ہے۔ مشہور قراء ۃ میں فتح سے ہمکنار ہونے والے دوسری قراء ۃ میں شکست سے دو چار ہو رہے ہیں۔ پہلی صورت میں فعل کا جو صیغہ معروف استعمال ہوا ہے،دوسری صورت میں وہی صیغہ مجہول استعمال ہو رہا ہے،لہٰذا کلام اللہ کے ایک ہی جملہ کی یہ دو مختلف قراءاتیں اور دو مختلف معانی باہم متناقض اور متضاد ہیں۔‘‘[1] گولڈ زیہر کا یہ اقتباس دو نکات پر مبنی ہے: (۱)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے رومیوں کے غلبہ کی خبر وثوق اور یقین کی بجائے امید اور تجزیہ کے پیرائے میں دی گئی ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت مستقبل کی کسی پیش گوئی پر مبنی نہیں ہے،لہٰذا اسے نہ تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی واضح دلیل قراردیا سکتا ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر قرآن کو کلام الٰہی مانا جاسکتا ہے۔کیونکہ ہر شخص جوچاہے آرزو کر سکتا ہے اور آزاد مرضی سے حالات کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ہے،بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو خواہش کی حدتک ہی محدود رکھے اورکسی امر محال کی آرزو نہ کرے۔ (۲)۔ دونوں قراءات کے درمیان واضح تضاد پایا جاتا ہے،کیونکہ دوسری قراء ۃ نے پہلی قراء ۃ میں فتح یاب ہونے والوں کو شکست سے دو چار قرار دے دیا ہے۔اور یہ واضح تناقض ہے۔ گولڈ زیہر کی پہلی بات کا جائزہ: جہاں تک گولڈ زیہر کی پہلی بات کا تعلق ہے تو وہ سراسر باطل اوربے بنیاد ہے،کیونکہ اس پوری آیت ِمبارکہ میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے امید،تمنا یا آرز و کا مفہوم کشید کیا جا سکے۔بلکہ آیت کے الفاظ میں معمولی سا غور وفکریہ واضح کرنے کے کافی ہے کہ یہاں
Flag Counter