Maktaba Wahhabi

88 - 148
درمیان معاملہ التوا کا متقاضی ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے ریاضی دانوں کے درمیان اس وقت کی تعیین میں اختلاف ہوجاتا ہے،جس میں فتح کی پیش گوئی کی گئی تھی۔لہٰذا ’’بعد بضع‘‘ کے بجائے ’’فی بضع‘‘ کی تعبیر نہایت خوبصورت اور واقعہ کے اعتبار سے نہایت موزوں ہے۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ زیر بحث آیت ِمبارکہ میں مستقبل کے ایک واقعہ کی پیش گوئی کی گئی ہے،جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے پاس نہیں تھا۔اور یہ خبر اس حقیقت کا قطعی ثبوت ہے کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت برحق اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔ گولڈ زیہر کی پہلی بات کا جائزہ: گولڈ زیہر کی یہ بات کہ دونوں قراءات کے درمیان واضح تضاد پایا جاتا ہے،تو عرض یہ ہے کہ آیت کریمہ میں دو قراءات ہیں:پہلی قراء ۃ:’’غُلِبَتِ‘‘ غین کی پیش اور لام کی زیر کے ساتھ اور ’’سَیَغْلِبُونَ‘‘ یاء کی زبر اور لام کی زیر کے ساتھ ہے۔ یہ متواتر قراء ۃ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ رومیوں کو قریب کی سرزمین میں شکست ہوئی ہے۔یعنی وہ سر زمین جو مکہ مکرمہ کی حدود کے قریب ہے۔ یہ جگہ اذرعات اور بُصریٰ کے درمیان واقع ہے اور بلادِ شام کا مکہ سے قریب ترین علاقہ یہی ہے۔بعض کے نزدیک یہ جگہ الجزیرہ میں ہے،اس لحاظ سے یہ جگہ عجم میں ارضِ کسرٰی کے زیادہ قریب ہے۔ بعض کے نزدیک اردن اور فلسطین میں ہے۔ اس لحاظ سے یہ جگہ بلاد روم کے زیادہ قریب ہے۔﴿وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُون﴾ کا مطلب یہ ہے کہ ’’اہل روم ایرانیوں سے شکست کھانے کے بعد عنقریب چند سالوں میں ایرانیوں کو شکست سے دوچار کریں گے۔‘‘ اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ جب رومیوں نے ایرانیوں کو شکست فاش دی اور رومیوں کے زیر قبضہ عرب علاقوں پر بھی قابض ہو گے تو یہی وہ دور تھا جب مکہ میں مشرکینِ اور مسلمانوں کے درمیان سرد جنگ جاری تھی۔ رومی اہل کتاب اور دین ِنصرانیت کے پیروکار تھے،اس لیے اصولی طور پر مسلمانوں کی ہمدردیاں مسیحیوں کے ساتھ تھیں اور ان پر ایرانی مشرکوں کا غلبہ انہیں ناگوار تھا۔ اور ایرانی
Flag Counter