Maktaba Wahhabi

91 - 148
اس کی تردید بھی کر دی ہے۔ چنانچہ اس نے ان دونوں قراءات کے مفہوم میں تطبیق دیتے ہوئے اپنی کتاب کے صفحہ 31 پر لکھا ہے: ’’(غُلِبَتِ کی بجائے)بصیغہ معروف ’’ غَلَبَتِ الرُّومُ‘‘ بھی پڑھا گیا ہے۔اس میں اہل روم کی اس فتح کی طرف اشارہ ہے جو انہیں شام کی سرحدوں پر آباد عرب قبائل کے مقابلہ میں حاصل ہوئی تھی۔اور ’’وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ‘‘ اور بصیغہ مجہول ’’سیُغْلبون فی بضع سنین‘‘ کی قراء ۃ کو جو مسلمان جائز سمجھتے ہیں،ان کے نزدیک اس میں اس فتح کی خبر دی گئی ہے جو وحی کے نو سال بعد نوخیز امت مسلمہ کو بازنطینی حکومت کے مقابلہ میں حاصل ہوئی تھی۔‘‘ اس صریح اقرار کے باوجود گولڈ زیہر کا دعوائے تضاد بذات خود تضاد کی واضح مثال ہے۔ گزشتہ بحث سے یہ بات واضح ہو چکی کہ دونوں قراءات کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے،لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دوسری قراء ۃ درج ذیل دو وجہ سے قطعاً قابل اعتناء نہیں ہے: (۱)۔ نہ تو یہ ائمہ عشرۃ کی قراءات میں سے ہے،جنہیں علماے قراء ت کے ہاں تواتر اور قبول عام کا مقام حاصل ہے اورنہ ہی یہ چار معروف قراءات شاذہ میں سے ہے۔ (۲)۔ یہ قراء ت نہ صرف آیت کے شان نزول اورصحیح تاریخی حقائق کے خلاف ہے بلکہ ان بے شمار احادیث و آثار سے بھی لگا نہیں کھاتی کہ جن کا ان آیات سے گہرا تعلق ہے،لہٰذا یہ قراء ت اس قابل ہے کہ اسے مسترد کر دیا جائے۔ قراءات کے متعلق گولڈ زیہر کے دیگرخیالات کا تجزیہ: مذکورہ عنوان کے تحت گولڈ زیہر نے یہ لکھا ہے: ’’قراءات کے بعض اختلافات کا ایک سبب یہ خدشہ تھا کہ اللہ اوراس کے رسول کے بارے میں وہ بیانات نقل نہ ہو جائیں جو ان کی شان کے منافی ہوں یابعض شخصیات کی قدر و منزلت کے منافی ہوں۔تو اس خطرہ کے پیش نظر بعض قراء نے بعض کلمات میں اپنی طرف سے مناسب ردو بدل کردیا،جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی
Flag Counter