Maktaba Wahhabi

26 - 135
قاضی ابوبکر رحمہ اللہ اپنی کتاب ‘‘الانتصار‘‘ میں فرماتے ہیں: ((لَمْ یَقْصِدْ عُثْمَانُ مَقْصَدَ أَبِیْ بَکْرٍ فِیْ جَمْعِ نَفْسِ الْقُرْآنِ بَیْنَ لَوْحَیْنِ، وَاِنَّمَا قَصَدَ جَمْعَہُمْ عَلٰی الْقِرَآئَ اتِ الثَّابِتَۃِ الْمَعْرُوْفَۃِ عَنِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَاِلْغَآئِ مَالَیْسَ کَذٰلِکَ، وَأَخْذِہِمْ بِمُصْحَفٍ وَاحِدٍ بِاتِّفَاقِ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ لِمَا خَشِیَ الْفِتْنَۃَ بِاخْتِلَافِ أَہْلِ الْعِرَاقِ وَالشَّامِ فِیْ بَعْضِ الْحُرُوْفِ)) [1] ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصد، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مانند قرآن مجید کو فقط دوگتوں کے درمیان جمع کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کا مقصد مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت معروف قراءات پر جمع کرنا، غیر ثابت شدہ قراءات کو ختم کرنا اور انصار ومہاجرین کے اتفاق سے ایک مصحف تیار کرنا تھا۔ کیونکہ اہل شام و اہل عراق کی جانب سے بعض حروف میں اختلاف کرنے کے سبب انہیں فتنے کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔‘‘ قوی گمان یہی ہے کہ اہل عراق و اہل شام وغیرہ کے درمیان پیش آنے والے اختلافات، جو متفق علیہ مصاحف کی کتابت اور مسلمانوں کو قراءات معتبرہ پر جمع کرنے کا سبب بنے، قراءات شاذہ کے پھیلاؤ کا ذریعہ بھی تھے۔ ہم نے یہ نقطہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے اخذ کیا ہے کہ جسے ابن ابی داؤد نے یزید بن معاویہ نخعی رحمہ اللہ کے طریق سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں ولید بن عقبہ کے زمانہ میں مسجد کوفہ کے ایک حلقہ میں موجود تھا، جس میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا: قراء ت تو سیدنا ابن مسعود کی ہے! پھر دوسرے کو یہ کہتے ہوئے سنا: قراء ت تو سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ہے! اس پر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ غصے سےکھڑے ہوگئے، اللہ کی حمدو ثناء بیان کی، پھر فرمایا: تم سے پہلے لوگ بھی ایسے ہی اختلاف کیا کرتے تھے، اللہ کی قسم! میں یہ معاملہ امیر المؤمنین کی خدمت میں ضرور پیش کروں گا۔‘‘ [2] اس روایت میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت کا تذکرہ ہے، اور آپ کی قراء ت متعدد حروف میں رسم مصحف کی مخالفت کی بنا پر شاذ قرار پاتی ہے۔ نواں مرحلہ: اس مرحلہ پر ہر شہر کے لوگوں کی ایک بڑی جماعت، اپنی طرف بھیجے گئے مصاحف
Flag Counter