Maktaba Wahhabi

36 - 135
فرماتے ہیں کہ آپ نے قراءات پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے، جس کا نام ’’الجامع‘‘ ہے۔ اس میں بیس سے کچھ زائد قراءات جمع ہیں۔ ۴۳۔ یحییٰ بن محمد بن صاعد رحمہ اللہ (ت ۳۱۸ھ) آپ کی کتاب کا نام ’’کتاب القراءات ‘‘ ہے۔ ۴۴۔ ابوبکر محمد بن احمد بن عمر داجونی رحمہ اللہ (ت ۳۲۴ھ)، علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ ’’النشر‘‘ میں فرماتے ہیں کہ آپ نے قراءات پر ایک کتاب لکھی، جس میں قراء سبعہ کے ساتھ امام ابو جعفر رحمہ اللہ کو بیان فرمایا ہے۔ [1] مذکورہ کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فقط قراءات سبعہ پر نہیں لکھی گئی تھیں۔ خاص طور پر وہ کتب جو بعض قرائے سبعہ سے پہلے لکھی گئیں۔ جیسے امام یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ ، امام ابان بن تغلب رحمہ اللہ ، امام ابو عمرو بن العلاء رحمہ اللہ اور امام حمزہ بن حبیب الزیات رحمہ اللہ کی کتب، قرائے سبعہ میں سے سب سے آخر میں امام علی بن حمزہ کسائی رحمہ اللہ (۱۸۹ھ) میں فوت ہوئے، جبکہ اس مرحلہ کی ابتداء امام یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ (ت ۹۰ھ) کے ہاتھوں پہلی صدی ہجری کے دوسرے نصف میں ہوئی، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور مستشرق فؤاد سزکین نے اشارہ کیا ہے مگر فؤاد نے امام یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ کی کتاب کو امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ (ت ۱۱۸ھ) کی کتاب کے ساتھ ملا دیا ہے۔ اس کتاب کا موضوع ’’اختلاف المصاحف‘‘ ہے، جیسا کہ اس نے خود اس کا نام ’’اختلاف مصاحف الشام والحجاز والعراق‘‘[2] رکھا ہے اور قراءات و رسم مصاحف میں فرق کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ علم وفن ہیں۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ فؤاد سزگین کو، قراءات قرآنیہ پر لکھی گئی کتب کی تاریخ بیان کرتے ہوئے وہم ہوگیا ہے۔ اور اس نے ابن محیصن رحمہ اللہ (ت ۱۲۳ھ) اور عیسیٰ بن عمر ثقفی رحمہ اللہ (ت ۱۴۹ھ) کے اختیارات پر اعتماد کر لیا ہے۔ جو اصطلاحات قراءات سےاس کی عدم معرفت پر دلالت کرتا ہے۔ [3] بارہواں مرحلہ: اس مرحلہ پر سات قراءات کی اصطلاح معروف ہوئی اور انہیں خاص کتب میں جمع کیا جانے لگا۔ ان قراءات سبعہ کو سب سے پہلے امام ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد تمیمی بغدادی رحمہ اللہ (ت ۳۲۴ھ) نے اپنی کتاب ’’ قراءات السبعۃ‘‘ میں جمع فرمایا۔
Flag Counter