Maktaba Wahhabi

64 - 135
اس قسم میں متواترہ اور مستفیضہ دونوں جمع ہوگئی ہیں، اور میں نے اس کا نام ’’متواترہ‘‘ رکھا ہے، ’’مقطوع بہا‘‘ نہیں رکھا، تاکہ قراء کرام کے ہاں معروف اصطلاح محفوظ رہے۔ ۲۔ آحادیہ: اس سے ہماری مراد ارکان ثلاثہ کی جامع قراء ت ہے۔ جس کی نقل اس درجہ تک نہیں پہنچتی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اتصال سند کا قطعی فائدہ دے۔ ۳۔ شاذہ: اس سے مراد وہ قراء ت ہے، جو رسم کے خلاف ہو۔ قراء ت متواترہ اور شاذہ کے درمیان تفریق: قراءات متواترہ اور شاذہ کے درمیان تفریق کرنے کے لیے مؤلفین قراءات کے مناہج کو جاننااز حد ضروری ہے، علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ منجد المقرئین میں فرماتے ہیں۔ ۱۔ بعض مؤلفین نے اپنی کتب کو اختیارات کی بنیاد پر تصنیف کیا ہے، جن میں انہوں نے قراءات متواترہ کے اپنے مقرر کردہ ارکان کے پائے جانے کی شرط لگائی ہے، اور ان کتب کو لوگوں کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ ایسی کتب کی نقل کو متواتر شمار کیا جاتا ہے۔ جیسے: ابن مہران رحمہ اللہ کی ’’غایۃ‘‘، ابو العلاء ہمدانی رحمہ اللہ کی ’’غایۃ‘‘ ابن مجاہد کی رحمہ اللہ ’’سبعۃ‘‘، ابو العزقلانسی رحمہ اللہ کی ’’إرشاد‘‘، ابو عمرو دانی رحمہ اللہ کی ’’تیسیر‘‘، ابو علی اھوازی رحمہ اللہ کی ’’موجز‘‘، ابن ابی طالب رحمہ اللہ کی ’’تبصرۃ‘‘، ابن شریح رحمہ اللہ کی ’’کافی‘‘ ابو معشر طبری رحمہ اللہ کی ’’تلخیص‘‘، صفراوی رحمہ اللہ کی ’’إعلان‘‘، ابن فحام رحمہ اللہ کی ’’ تجرید‘‘، ابو القاسم شاطبی رحمہ اللہ کی ’’حرز‘‘ ابن الجزری رحمہ اللہ کی ’’ نشر‘‘، ’’تقریب النشر‘‘ اور ’’تحبیر التیسیر‘‘ وغیرہ۔ [1] ۲۔ جبکہ بعض نے ہر دستیاب روایت کو جمع کرنے کی بنیاد پر کتب لکھی ہیں، اور ان میں قراءات متواترہ کے ارکان کے پائے جانے کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ ایسی کتب کی نقل کو متواتر
Flag Counter