Maktaba Wahhabi

107 - 121
غنہ بالاخفاء جیسے ((من شر)) پر تلقین کے ذریعے اداء کا طریقہ سمجھایا جائے۔ [13]… اخطاء کی تصیح کا طریقہ: اخطاء کی تصیح کا طریقہ یہ ہے کہ معلمہ سابقہ آیات میں سنی گئی اخطاء کے مقام کی تحدید کرے خواہ وہ غلطی مخارج سے تعلق رکھتی ہو یا صفات سے تعلق رکھتی ہو یا کوئی تجویدی حکم ہو جیسے اخفاء وغیرہ۔ ٭…٭…٭ دوسرا طریقہ، تلقین طریقہ: یہ طریقہ ان طلباء کے لیے جو مصحف سے قرأت نہیں کر سکتے۔ 1۔ تلقین کی تعریف: ’’اللقن‘‘ سے مراد کسی شی کا فہم ہے، کہا جاتا ہے: ((لقننی فلان کلاماً)) میں نے مجھے وہ بات سمجھا دی جو میں سمجھنے والا نہ تھا۔ لہٰذا ’’اللقن‘‘ سے مراد سرعت فہم (جلدی سمجھنا) ہے اور ’’التلقین‘‘ سے مراد سرعت تفہیم (جلدی سمجھانا) ہے۔ ٭ تلقین کی اہمیت: جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو سیّدنا جبرئیل کو ان کی طرف بھیجا، انہوں نے آپ کو سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات بطریقۂ تلقین پڑھائیں۔ مخصوص تعلیم قرآن میں اس کو ایک مثالی طریقہ شمار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس طریقہ میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ لیکن طالب علم کی ادائیگی کو عمدہ بنانے میں انتہائی کارگر ثابت ہوا ہے… جس کو تلقین کی جاتی ہے وہ غلطی نہیں کرتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ } (النمل: 6) ’’بے شک آپ اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جا رہا ہے۔‘‘ ٭ تلقین کے دو طریقے: [1]… تلقین انفرادی: یعنی ایک طالب علم کو تلقین کی جائے، معلم ایک ایک آیت پڑھے اور طالب علم اس کے پیچھے پیچھے پڑھے۔
Flag Counter