Maktaba Wahhabi

121 - 241
پر دھاوا کرے۔ دروازوں پر دربان نہ بٹھائیں تو بد ذاتوں کو جرأت ملے۔ اِس پر بھی میں آپ کا مقرر کردہ عامل ہوں۔ آپ مجھے کوئی چیز گھٹانے کو کہیں گے تو گھٹادوں گا۔ کوئی چیز بڑھانے کو کہیں گے تو بڑھا دوں گا۔ کہیں توقف کرنے کو کہیں گے تو حسب ارشاد توقف کروں گا۔‘‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مفصل وجہ بیان کی۔ فرمایا: ’’میں نے تم سے جو بھی سوال کیا، تم اس کے نرغے سے صاف نکل گئے۔ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ دانش مند آدمی کی صوابدید کا کرشمہ ہے۔ اگر جھوٹ کہتے ہو تو یہ چالاک آدمی کا دغا و فریب ہے۔ میں تمھیں اس تمام اہتمام کا نہ تو حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں۔‘‘ [1] معلوم ہوا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی توجہ عوام کی فلاح و بہبود پر مرکوز رہتی تھی۔ ان کی اولین ترجیح یہی ہوتی تھی کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہوں۔ اس سلسلے میں وہ کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی عامل یا عہدیدار کوتاہی کرتا تو سختی سے باز پرس کرتے اور معقول وجہ نہ پاتے تو سزا بھی دیتے تھے۔ اہلِ خانہ کے درمیان اہلِ خانہ کے ساتھ ان کا رویہ بڑا مشفقانہ و ہمدردانہ تھا۔ اپنی اہلیاؤں سے ان کا سلوک بڑا کریمانہ تھا۔ اس سلسلے میں وہ نہایت وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب اپنی اہلیہ کی بدسلوکی اور سوئے اخلاق کا شکوہ کرنے حاضر خدمت ہوئے۔ دروازے پر کھڑے انتظار کرنے لگے کہ باہر تشریف لاتے ہیں تو شکایت پیش کرتا ہوں۔ اتنے میں انھیں آپ کی اہلیہ محترمہ کی آواز سنائی دی جو بے طرح برس
Flag Counter