Maktaba Wahhabi

136 - 241
جانے دو، معاف کردو۔ تم تو یہ کہہ کر اطمینان سے بیٹھ جاؤ گے۔ قیامت کے دن وہ روپیہ لوٹانا تو مجھی کو پڑے گا۔ اِس لیے میں نے سوچا کہ تم جیسے حریص اور بخیل آدمی سے روپیہ لوں تاکہ اگر میں مرگیا تو تم یہ روپیہ میرے ترکے میں سے وصول کرلو۔‘‘ عرصے بعد جب خلافت کی ذمے داریاں بہت بڑھ گئیں تو ان کا وظیفہ مقرر کیا گیا۔ یہ سوال پیدا ہوا کہ وظیفہ کتنا ہونا چاہیے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو آپ کی اور آپ کے اہل و عیال کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ ضرورت سے کم نہ ضرورت سے زیادہ، چنانچہ اسی اصول کے مطابق وظیفہ مقرر کر دیا گیا۔ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی وضاحت فرمائی: ’’اللہ کا روپیہ استعمال کرنے کے سلسلے میں، میں خود کو یتیم کے درجے پر لے آیا ہوں۔ اگر مجھے ضرورت نہ پڑی تو نہیں لوں گا۔ ضرورت پڑی تو اتنا لوں گا جس سے ضرورت پوری ہو جائے۔ جب اپنا روپیہ آئے گا تو وہ بھی لوٹا دیا کروں گا۔‘‘ یہ تھا قرآنِ مجید کا مطلوبہ عہدیدار، قوی (طاقتور) اور امین (امانت دار)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک مرتبہ سخت گرمی کے موسم میں زکاۃ کے اونٹ چراتے دیکھاتو عرض کیا کہ آپ ناحق تکلیف کرتے ہیں۔ یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ کام مجھی کو کرنا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہاں کھڑے لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’جو آدمی (قرآن مجید میں ذکر کردہ) قوی اور امین عہدیدار کا دیدار کرنا چاہتا ہے وہ ان کا (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا) دیدار کرے۔‘‘ رعایا کی خاطر راتوں کو جاگنا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ تاجروں کا ایک قافلہ مدینہ میں آیا
Flag Counter