Maktaba Wahhabi

155 - 241
ایک روز حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ابولؤلؤ کی دکان پر گئے اور اس سے فرمایا کہ سنا ہے تم پَوَن چکی بنا سکتے ہو۔ اس نے پلٹ کر بڑے غصے سے آپ کی طرف دیکھا۔ چند اور افراد بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ اس نے گستاخانہ کہا: ’’تمھارے لیے تو میں ایسی چکی بناؤں گا کہ لوگ یاد کریں گے۔‘‘ اس کی یہ بات آپ نے نہایت صبر و تحمل سے سنی اور ہمراہیوں سے کہا: ’’اِس غلام نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے۔‘‘ [1] شہادت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جماعت کھڑی ہوتی تو صفوں میں آتے اور کہتے: ’’برابر ہو جایئے۔‘‘ سب لوگ برابر کھڑے ہو جاتے تو آپ آگے بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ اس روز بھی آپ نے صفیں سیدھی کرائیں اور آگے بڑھے۔ چوتھی تکبیر کہی، ابولؤلؤ نے آپ کے خنجر مارا۔ آپ نے کہا کہ مجھے کتے نے مار ڈالا، یا یہ کہا کہ مجھے کتا کھا گیا۔ خنجر کا وار کرکے ابولؤلؤ واپس پلٹا اور دائیں بائیں خنجر لہراتا گیا۔ یوں اس نے مزید تیرہ آدمیوں کو شدید زخمی کیا جن میں سے سات آدمی بعد ازاں شہید ہوگئے۔ وہ درندہ شاید کچھ اور لوگوں کو کاٹتا کہ ایک صاحب نے آگے بڑھ کر اس پر چادر پھینکی اور اسے پکڑنا چاہا۔ ابولؤلؤ کو جب یقین ہوگیا کہ اب وہ پکڑا جائے گا تو اس ملعون نے خود پر خنجر کا وار کیا اور خود کشی کرلی۔ [2] ابولؤلؤ کا یہ بہیمانہ اقدام اس کی اپنی شرارت کا نتیجہ نہیں تھا۔ اِس اقدام کے پیچھے کئی اور لوگوں کا خفیہ ہاتھ تھا۔ انھی نے اس قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ابولؤلؤ تو ان کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اُس نے خود کو کیوں مار ڈالا۔ ہر
Flag Counter