Maktaba Wahhabi

160 - 241
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میرے چہرے پر غصے کے آثار نظر نہیں آئیں گے۔‘‘ اختتامیہ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے طرز حکومت کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ جہاں حکام کی طرف سے رعایا کی کڑی نگرانی کی جاتی وہیں رعایا بھی حکام کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتی تھی۔ رعایا کے ہر فرد کو یہ شعور حاصل تھا کہ اسلامی ریاست کے نظام میں پیدا ہونے والی بے اعتدالی کا ذمے دار حاکم وقت ہی نہیں، خود وہ بھی اسلامی ریاست کا فعال شہری ہونے کے ناتے اس بے اعتدالی کے لیے برابر کا ذمے دار ہے۔ اسی امر کے پیش نظر وہ نہ صرف اپنے عمل وکردار کی کڑی نگرانی کرتا بلکہ ارد گرد بسنے والے دیگر افراد کے طور اطوار کا بھی پورا پورا دھیان رکھتا تھا۔ وہ نفاذ شریعت کا تسلسل بر قرار رکھنے میں مددد دیتا اور احکامات الٰہی کی تعمیل کے سلسلے میں حاکم وقت کا ممد ومعاون ثابت ہوتا تھا۔ اس ضمن میں اس کا رویہ فرمان نبوی کے عین مطابق تھا کہ تم میں سے ہر ایک آدمی صاحبِ رعایا ہے اور تم میں سے ہر ایک آدمی اپنی رعایا کے متعلق جوابدہ ہے۔ ایک مرتبہ اہل یمن کی طرف سے مدینہ منورہ میں کچھ کپڑے آئے۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وہ کپڑے تمام مسلمانوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کردیے۔ ہر مسلمان کو ایک کپڑا میسر آیا۔ چند روز بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter