Maktaba Wahhabi

77 - 241
کی دختر تھیں۔ بڑی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ ان کے متعلق حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورِ خاص بتایا تھا کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں۔[1] جاہلیت کا عمر بن خطاب شہرِ مکہ کا باسی تھا۔ بطحائے مکہ ہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔ وہ مکہ کے گرد و نواح میں دن دن بھر خطاب کے اونٹ اور اپنے بعض اقارب کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ وہ پینے پلانے کا شغل بھی رکھتا اور جم کر پیتا تھا۔ مکہ کے دیگر نوجوانوں کی طرح وہ بھی عکاظ کے میلے میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتا۔ شہ زور ہونے کے ناتے عکاظ کے دنگل میں خم ٹھونکتا اور بڑے بڑے پہلوانوں سے پنجہ لڑاتا۔ پڑھا لکھا تھا اور شعر و شاعری کے ذوق سے آشنا۔ عکاظ میں شعر و شاعری کی جو محفلیں آراستہ ہوتیں، ان میں شرکت کرتا اور نہایت توجہ سے شعر سنتا۔ یوں اُس کی زندگی اور زندگی کی تمام سرگرمیاں مکہ کے دیگر باسیوں کے مقابلے میں مختلف نہیں تھیں۔ اسلام کے زیر سایہ عمر بن خطاب نے اسلام کیونکر قبول کیا اور اسلام ان کے دل میں کیسے جاگزیں ہوا، آیئے یہ ماجرا خود ان کی زبانی سنتے ہیں۔ ان کا بیان ہے: ’’میں اسلام سے بہت دور تھا۔ اسے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ جاہلیت میں جم کر شراب پیا کرتا تھا۔ شراب سے مجھے بڑا پیار تھا اور میں پی کر پھولے نہ سماتا تھا۔ ہماری بادہ خوری کی محفل میں قریش کے نامی سردار شریک ہوتے تھے۔ ایک رات یہی ارادہ کرکے گھر سے نکلا کہ چل کے دوستوں میں بیٹھتے اور ذرا پیتے پلاتے ہیں۔ اس جگہ پہنچا جہاں ہماری محفل جمتی تھی۔ آج کوئی ندیم نہیں آیا
Flag Counter