Maktaba Wahhabi

84 - 241
نے حق و باطل میں فرق کر دکھایا تھا۔ ان کے متعلق ان کے دوست حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا: ’’جب عمر اسلام لائے، ہمارا اثرو رسوخ قائم ہوگیا۔[1] ان کا قبولِ اسلام (اسلام کی) فتح تھی۔ ان کی ہجرت (اللہ کی) نصرت اور ان کی خلافت (اللہ کی) رحمت تھی۔ جب تک عمر اسلام نہ لائے، ہم بیت اللہ میں کھلے عام نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔‘‘ [2] حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ جب عمر نے اسلام قبول کیا تو ہم بیت اللہ کے گرد بے روک ٹوک مجلسیں آراستہ کرنے لگے۔ تب ہم نے کھلے عام کعبہ کا طواف کیا اور جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا تھا، ان سے ہم نے انتقام لیا۔[3] ہجرت مدینہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ یثرب کی طرف ہجرت کر جائیں، چنانچہ جونہی رات کی تاریکی چھاتی، وہ دبے پاؤں مکہ سے نکلتے اور تیزی سے سفر کرتے ہوئے یثرب پہنچ جاتے۔ بعض افراد ٹولیوں کی شکل میں نکلتے اور بعض فرداً فرداً ہجرت کا یہ طویل سفر طے کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ سے یہ طے کیا کہ وہ تینوں ہجرت کا سفر اکٹھے طے کریں گے۔ آغاز سفر کے لیے مکہ سے دس میل دور واقع دیار بنی غفار کا انتخاب کیا گیا اور یہ طے پایا کہ تینوں وقت مقررہ پر وہاں پہنچیں گے۔ جو آدمی وہاں نہیں پہنچ پایا، باقی دونوں اس کا انتظار کیے بغیر سفر کا آغاز کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
Flag Counter