Maktaba Wahhabi

36 - 269
قبول فرما لیں۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے خود بھی کھایا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی کھلایا۔ [1] سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ دو نشانیاں تو پوری ہوئیں۔‘‘ پھر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کلثوم بن ہدم فوت ہو گئے۔ ان کی میت بقیع الغرقد لائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے وہاں پہنچے اور اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھ گئے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ باقی علامات نبوت کی تصدیق کر لیں، چنانچہ وہ گھوم کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کی جانب آئے تا کہ وہ مہرِ نبوت کو دیکھ سکیں جس کا ذکر پادری نے کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا کہ یہ شخص کیا چاہتا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک پیٹھ سے کپڑا ہٹا دیا۔ سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں نے مہر نبوت کو دیکھا تو پہچان لیا، میں فوراً جھک کر مہر نبوت کو چومنے لگا اور خوشی کے مارے میرے آنسو بہہ پڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ادھر آؤ! میرے پاس بیٹھو۔‘‘ سلمان رضی اللہ عنہ اپنے محبوب آقا کے سامنے بیٹھ گئے، انھوں نے اپنی پوری آپ بیتی کہہ سنائی اور اسلام قبول کر لیا اور بہت ہی اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ اس کے بعد بھی کچھ عرصہ تک سلمان رضی اللہ عنہ اپنے یہودی مالک کی غلامی میں رہے۔ دن کو اس کی خدمت کرتے اور رات کو اپنے رب کی عبادت کرتے۔ اس طرح وہ بہت سے حالات و معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے قاصر رہے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی آزادی سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ اپنے مالک سے چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے
Flag Counter