Maktaba Wahhabi

101 - 250
مثلاً: سیدنا علی رضی اللہ عنہ ﴿ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ﴾ ’’اور اونچی چھت کی‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آسمان ہے۔ پھر اپنے قول کی تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ پیش کرتے ہیں: ﴿ وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَّحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ ’’اور آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ اس پر بھی وہ ہماری نشانیوں سے منہ پھیر رہے ہیں۔‘‘ (الانبیاء:32) چوتھی قسم تفسیر القرآن بالقرآن کی چوتھی قسم یہ ہے کہ علمائے امت متفقہ طور پر کسی آیت کو دوسری آیت کی تفسیر قرار دیں۔ اس کی کوئی واضح مثال کتب اصول تفسیر میں دستیاب نہیں ہو سکی۔ تاہم مؤلف کے نزدیک قرآن مجید میں انبیائے کرام اور امم ماضیہ کے متکرر واقعات اس کی بہترین مثال ہیں۔ مثلاً: سیدنا آدم علیہ السلام اور ابلیس لعین کا واقعہ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ متعدد بار قرآن مجید میں مذکور ہے اور تمام مفسرین متعلقہ مقامات قرآن کو باہم ملا کر ہی تفسیر کرتے ہیں۔ اس بارے میں کسی معتبر اہل علم سے کوئی اختلاف منقول نہیں۔ پانچویں قسم تفسیر القرآن بالقرآن کی پانچویں قسم یہ ہے کہ کوئی مفسر اپنے ذاتی اجتہاد و استنباط سے کسی آیت کو دوسری آیت کی تفسیر قرار دے، یا کسی مضمونِ قرآن کی تفسیر دوسرے مقامات سے پیش کرے۔ اس صورت میں مفسر کا مدلول اگرچہ قرآن مجید ہی ہے، اس کا مبدأ و اصول بھی صحیح مسلّم ہے لیکن کیا وہ آیت واقعتاً دوسری آیت کی تفسیر ہے یا نہیں؟ اور آیا وہ مضمون واقعتاً قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے ثابت ہے یا نہیں؟ یہ بہرحال اس کا ذاتی اجتہاد شمار ہو گا، جو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ مثلاً: ﴿ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ میں اختلاف ہے کہ یہاں ’’قراء‘‘ سے مراد طہر ہے یا حیض،
Flag Counter