Maktaba Wahhabi

112 - 250
مجمل کی اصطلاحی تعریف دو یا جن میں اس سے زائد معانی کا مساوی احتمال موجود ہو اور ایک دوسرے پر کوئی وجہ ترجیح بھی نہ ہو اسے مجمل کہتے ہیں۔ اس کے بالمقابل ’’ مبيَّن‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ [1] مراقی السعود میں مجمل کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’ وذو وضوح محكم، والمجمل هو الذي المراد منه يجهل‘‘ [2] ’’مجمل وہ ہے جس کی مراد میں دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو اور کسی ایک معنی کی ترجیح اس میں نہ پائی جائے۔‘‘ مبہم: مبہم مجمل سے زیادہ وسعت کا حامل ہے۔ ہر مجمل مبہم ہے لیکن ہر مبہم مجمل نہیں۔ مثلاً: آپ اپنے نوکر سے کہتے ہیں: ’’ تصدق بهذا الدرهم علي رجل‘‘ یہ درہم کسی آدمی پر صدقہ کر آؤ، اس کا معنی بالکل واضح ہے۔ وہ کسی پر بھی صدقہ کر آئے تو آپ کے حکم کی تعمیل بجا ہو گی۔ اس لحاظ سے یہ مجمل نہیں، کیونکہ معنی واضح ہے اور زیادہ احتمالات موجود نہیں ہیں۔ لیکن یہ مبہم ہے کیونکہ واضح نہیں کہ متعین طور پر کس آدمی کو صدقہ دیا جائے۔ [3] قرآن مجید میں مجمل تعبیرات بھی ہیں اور مبہم اشیاء بھی، لیکن خود قرآن مجید اپنے بہت سارے اجمالات کو کھول دیتا ہے اور مبہمات کی تعیین کر دیتا ہے۔ مثال نمبر 1 فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ﴾ (البقرۃ:37) ’’آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھے۔‘‘ یہ کلمات کیا تھے؟ اس میں ابہام ہے، جسے خود باری تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر دور فرمایا ہے: ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣﴾
Flag Counter