Maktaba Wahhabi

117 - 250
’’مطلق وہ ہے جو کسی ماہیت و حقیقت پر بلاقید دلالت کرے۔‘‘ مطلق و مقید کے بارے میں دو اہم قواعدِ تفسیر پہلا قاعدہ مطلق کے بارے میں پہلا قاعدہ یہ ہے: ’’ ابقاء المطلق علي اطلاقه حتي يرد ما يقيده‘‘[1]کہ مطلق الفاظ اپنے عموم پر ہی محمول کیے جاتے ہیں، اس پر کوئی قید یا تخصیص و تعیین صرف اس صورت میں جائز ہو گی جب اس کی دلیل موجود ہو۔ [2] مثال: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ﴾ (البقرۃ:185) ’’(روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں ’’ أَيَّامٍ أُخَرَۗ‘‘ دوسرے دن جن میں رمضان کے روزوں کی قضا دینی ہے، مطلقاً استعمال ہوا ہے۔ صرف تعداد کی شرط لگائی گئی ہے کہ قضا شدہ روزوں کی تعداد کے مطابق ہو۔ اس بنیاد پر رمضان کے روزوں کی قضا میں تسلسل اور لگاتار قضا کی شرط لگانا مرجوح
Flag Counter