Maktaba Wahhabi

178 - 250
مزید برآں سیاق و سباق سے بھی کثیر الاستعمال معنی کی ہی واضح تائید ہو رہی ہے، جیسے ارشاد الٰہی ہے: ﴿ لَّا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا ﴿٢٤﴾ إِلَّا حَمِيمًا وَغَسَّاقًا ﴿٢٥﴾﴾ (النباء:24-25) ’’وہاں نہ ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے نہ (کچھ) پینا (نصیب ہو گا)۔ مگر گرم پانی اور بہتی پیپ‘‘ ’’ بَرْدًا، شَرَابًا‘‘ کے بالمقابل ’’ حَمِيمًا،غَسَّاقًا‘‘ کو لایا گیا ہے۔ جس سے یہ معنی کھل کر سامنے آتا ہے کہ اہل جہنم کی ’’ بَرْدًا‘‘ (ٹھنڈک) کی بجائے ’’ حَمِيمًا‘‘ (گرم کھولتا ہوا پانی) اور ’’ شَرَابًا‘‘ (مشروب) کی بجائے ’’غَسَّاقًا‘‘ (پیپ) سے تواضع کی جائے گی۔ قدیم مفسرین کے نزدیک مشہور و متبادر الی الذہن معانی کو چھوڑ کر، نادر اور قلیل الاستعمال معانی مراد لینا کبھی بھی علماء راسخین کا طریق نہیں رہا ہے۔[1] (2) لغوی معانی بنیادی طور پر صحابہ اور تابعین سے حاصل کیے جائیں گے بیشتر صحابہ کرام خالص عربی النسل ہیں، ان ہی کو براہ راست قرآن مجید نے مخاطب کیا ہے اور انہی کی لغت میں قرآن نازل ہوا ہے۔ تابعین نے ان سے علم حاصل کیا اور صحابہ و تابعین خالصتاً لغوی لحاظ سے بھی اس دور سے تعلق رکھتے ہیں، جب عرب لوگوں کی زبان خالص تھی اور ہر خالص عربی کا بولا ہوا لفظ قابل حجت تھا، یعنی صحابہ و تابعین ’’عصر الاحتجاج اللغوی‘‘ سے وابستہ ہیں۔ اس لیے ان کی تشریحات ائمہ لغت، اصحابِ قوامیس و معاجم پر خالصتاً لغوی لحاظ سے بھی فائق ہیں۔ اس بناء پر صحابہ و تابعین کی تفسیرات کے دو اہم پہلو ہیں: (1) ایک پہلو کے لحاظ سے ان کی تفسیر ’’تفسیر بالمأثور‘‘ ہے کہ ان کے اقوال خالصتاً شرعی نقطہ نظر سے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ (2) دوسرے پہلو کے لحاظ سے ان کی تفسیر ’’تفسیر باللغۃ‘‘ کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، کیونکہ وہ عربی لغت کے دور احتجاج میں زندگی بسر کرنے والے خود اہل زبان لوگ ہیں۔
Flag Counter