Maktaba Wahhabi

180 - 250
’’اور ابو عبیدہ کا قول تمام مفسرین صحابہ و تابعین کے مخالف ہے اور کسی قول کے غلط ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ مذکورہ لوگوں کے مخالف ہو، اس بارے ابھی ہم ان کے اقوال واضح کر چکے ہیں اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک ثابت قدمی کا مفہوم یہ ہے کہ بارش کے نزول سے ریت گیلی اور تر ہو گئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے پاؤں جما دیے تاکہ نہ ان کے اپنے پاؤں پھسلیں اور نہ ہی ان کے جانوروں کے۔‘‘ اگر مزید غوروفکر کیا جائے تو صحابہ و تابعین کا بیان کردہ معنی سببِ نزول، سیاق و سباق اور خود آیت کی اندرونی ترتیب کے لحاظ سے بھی راجح قرار پاتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر صرف ایک پہلو پر غور کرنے سے ہی صحابہ کا مفہوم راجح نظر آنے لگتا ہے، مثلاً: اگر ثابت قدمی سے مجازی معانی مراد لیا جائے تو تکرار غیر مفید ماننا پڑے گا، کیونکہ صبروثبات کا تذکرہ تو ’’ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ‘‘ کہہ کر پہلے ہی کیا جا چکا ہے جو کہ نزول صبر کی خوبصورت پیرائے میں تصویر کشی کر رہا ہے، لہٰذا دوبارہ اس کے تذکرے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ (3) تفسیرِ صحابہ و تابعین کے مخالف لغوی تفسیر مردود ہو گی گزشتہ مثال سے یہ اصول بھی واضح ہوتا ہے کہ اصحابِ تفسیر بالمأثور کے نزدیک صحابہ و تابعین کی متفقہ تفسیر ہی قابل حجت ہے، اس کے مخالف لغوی تفسیر مردود ہے، اگرچہ ظاہر لغت کے اعتبار سے قابلِ قبول ہو اور محاوراتِ عرب بھی اس کی تائید کرتے ہوں۔ امام طبری کے درج ذیل الفاظ اس اصول کو آشکارا کرنے میں بہت اہم ہیں: ’’وحسب قول خطأً أن يكون خلافاً لقول من ذكرنا‘‘ [1] ’’کسی قول کے غلط ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہمارے مذکورہ لوگوں (صحابہ و تابعین) کے قول سے متعارض ہو۔‘‘
Flag Counter