Maktaba Wahhabi

184 - 250
قرآن مجید کے بہت سے الفاظ اس نوعیت کے ہیں کہ وقت نزول میں ان کے مخصوص معانی تھے، وقت کے کچھ کم یا زیادہ گزر جانے کے بعد انہی الفاظ پر اور معانی غالب آ گئے، جیسا کہ لفظ ’’ تأويل‘‘ ہے۔ اس کا مشہور معنیٰ مطلق تفسیری مخصوص طرز کی تفسیر ہے، لیکن قرآن مجید میں یہ اور معانی میں مستعمل ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَل لَّنَا مِن شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا﴾ (الاعراف: 53) اس آیت میں تاویل سے کیا مراد ہے؟ صحیح فہم حاصل کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ملت اسلامیہ میں پیدا ہونے والی جدید اصطلاحات سے آگاہی حاصل کرے، تاکہ وہ قرآن مجید میں وارد معانی اور جدید اصطلاحات کے نئے معانی میں فرق کر سکے تو بہت سے مفسّرین کلمات قرآن کی تفسیر ملت اسلامیہ میں تین صدیوں کے بعد پیدا ہونے والی جدید اصطلاحات کی روشنی میں کرتے ہیں، پس محقق پر ضروری ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر ان مفاہیم کی روشنی میں کرے جو زمانہ نزول میں مستعمل تھے۔ مثالیں (1) ’’ تأويل‘‘ کا لفظ کتاب اللہ میں زمانہ نزولِ وحی میں ایک خاص معنی میں مستعمل تھا، لیکن متأخرین کے نزدیک راجح مفہوم کو چھوڑ کر مرجوح معنی مراد لینے کو تأویل کہتے ہیں۔ (2) ’’ الحكمة‘‘ کا مفہوم سلف کے ہاں اور تھا، بعض متأخرین کے نزدیک فلسفہ پر بھی حکمت کا اطلاق ہوتا ہے۔ (3) قرآن مجید میں ’’قريه‘‘ اور ’’مدينه‘‘ ایک ہی معنی میں مستعمل ہے، جبکہ متاخرین کے نزدیک بڑے شہر کو ’’مدينه‘‘ اور بستی، قصبہ وغیرہ کو ’’قريه‘‘ کہتے ہیں۔ (4) سلف کے ہاں اور لغت قرآنی میں ’’صدقه‘‘ کا مفہوم وسیع ہے، جس میں نفلی صدقات اور فرضی زکوٰۃ دونوں شامل ہیں، جبکہ بعض متاخرین کے نزدیک ’’صدقه‘‘ کا اطلاق صرف نفلی انفاق پر ہوتا ہے۔
Flag Counter